قومی اسمبلی ، اپوزیشن نے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا مطالبہ کردیا

اگر یہ رپورٹ منظر عام پر آجاتی تو امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر کو پاکستان کے خلاف متنازعہ بیان دینے کا موقع نہ ملتا، کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کے حوالے سے حکومت خود تذبذب کا شکار ہے،ایم کیو ایم کے رکن شیخ صلاح الدین اور پیپلزپارٹی کی شازیہ مری کا کانقطہ اعتراض پر اظہار خیال حسین حقانی نام نہاد دانشور اور کرائے کے تھنک ٹینک ہیں ، ایسے لوگوں کے بیانات کو اہمیت نہیں دینی چاہیے ، خسرو بختیار کیپٹن (ر )محمد صفدر کا سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کا نوٹس لینے کا مطالبہ

پیر 13 مارچ 2017 23:38

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل مارچ ء)قومی اسمبلی میں ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا مطالبہ کردیا گیا ہے ، اپوزیشن کی طرف سے واضح کیا گیا ہے کہ اگر یہ رپورٹ منظر عام پر آجاتی تو امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر کو پاکستان کے خلاف متنازعہ بیان دینے کا موقع نہ ملتا ۔ اس امر کا اظہار پیر کو ایم کیو ایم کے رکن شیخ صلاح الدین نے نقطہ اعتراض پر کیا ۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر کو اس قسم کے بیانات کا موقع کیوں ملتا ہے ، ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کی تحقیقات کیلئے قومی کمیشن بنا تھا ، بتایا جائے کہ اس کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے میں کون رکاوٹ ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ باقاعدہ طور پر ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو جاری کردے تا کہ کسی کو متنازعہ بیان کا موقع نہ ملے ۔

اس معاملے پر پیپلزپارٹی کی رکن شازیہ مری نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی صفوں میں ایسے بھی وزراء رہے ہیں جو ہمارے دور میں وزیر تھے تو کہتے تھے آصف علی زرداری کی قیادت میں پاکستان میں ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں اور جب یہ موصوف پیپلزپارٹی کو چھوڑ گئے تو کہنے لگے کہ زرداری حکومت میں ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں ہیں ۔ انہوں نے واضح کیا کہ کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کے حوالے سے حکومت خود تذبزب کا شکار ہے ، ہمیں سائبر سیکیورٹی بل کا کہا گیا تھا مگر آج تک سائبر سپیس کے تحفظ کیلئے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے ۔

ملک میں اگر سوشل میڈیا پر پابندی لگی تو پاکستان پیپلزپارٹی اس کی سخت مخالفت کرے گی ، قوم کو بتایا جائے کہ خصوصی ٹرائل کورٹس کیوںنہیں بنیں ، کالعدم تنظیموں کو کیوں کنٹرول نہ کیا جاسکا، انسداد دہشت گردی کی قومی اتھارٹی فعال کیوں نہیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بھی اشتعال انگیز تقاریر کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جو کہ انتہا پسندانہ ذہنیت کی عکاسی ہے ، یہ کیا چاہتے ہیں کہ مجمع جمع ہو جائے ، قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے ۔

سابق وزیر مملکت خارجہ امور خسرو بختیار نے کہا کہ حسین حقانی کے بیان کو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ابھی تک اس معاملہ پر نہ پینٹاگان اور نہ ہی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے کوئی بیان آیا ہے ۔ حسین حقانی نام نہاد دانشور اور کرائے کے تھنک ٹینک ہیں ، ایسے لوگوں کے بیانات کو اہمیت نہیں دینی چاہیے ۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ کسی صورت اس قسم کا مواد قابل برداشت نہیں ہے ، نبی پاک ﷺ کی ناموس کے تحفظ کیلئے ہماری جانیں بھی قربان ہیں اور اگر ان سائبر کرائم کا نوٹس نہ لیا گیا تو ملک میں غازی علم الدین اور ممتاز قادری پیدا ہوتے رہیں گے ، توہین کے ذریعے اشتعال انگیزی کی جارہی ہے ، ناموس رسالت ﷺ ہمارے لئے موت اور زندگی کا معاملہ ہے ، گستاخوں کو سزا دینا ہوگی ۔

نعیمہ کشور نے بھی سوشل میڈیا پر توہین رسالتﷺ کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ پی ٹی اے کو اس حوالے سے بروقت اقدام کرنا چاہیے تھا۔ میجر(ر) طاہر اقبال نے بھی مطالبہ کیا کہ سوشل میڈیا پر اسلام ،نبی پاک ﷺ اور اسلامی اقدار کی توہین پر مبنی مواد کا نوٹس لینا ضروری ہے ۔نقطہ اعتراض پر ایوان میں سید عیسیٰ نوری نے بلوچستان کے ضلع آواران اور دیگر علاقوں سے بڑی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے نام مردم شماری کے دوران درج نہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا اور کہا کہ بلوچستان کے کئی علاقوں سے لاکھوں لوگوں نے نقل مکانی کی ہے ۔

آواران سے 70فیصد افراد دوسرے علاقوں میں چلے گئے ہیں ، ان کے نام مردم شماری میں درج نہ ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ بڑی تعداد میں لوگوں کے پاس شناختی کارڈز بھی نہیں ہیں ۔