پاناما کیس ایک شخص کا نہیں قانون کا معاملہ ہے، جسٹس اعجاز افضل

ایسا فیصلہ دیں گے جو صدیوں تک یاد رکھا جائیگا ،اورنج میٹروٹرین کیس میں ریمارکس ہمیں معلوم ہے تاریخی ورثے کونقصان ہواتوبوجھ ہم پربھی ہوگا، جسٹس عظمت سعید مزید سماعت کل پھر ہوگی

منگل 11 اپریل 2017 18:33

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ بدھ اپریل ء) سپریم کورٹ میں اورنج لائن میٹروٹرین منصوبہ لاہور سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پانامہ لیکس کامقدمہ ایک شخص کا معاملہ نہیںبلکہ قانون کا معاملہ ہے ایسا فیصلہ دیں گے جو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا ، منگل کو کیس کی سماعت جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید ،جسٹس مقبول باقر ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل 5رکنی لارجربینچ کی ، دوران سماعت درخواست گزار آئی اے رحمان کے وکیل خواجہ احمد حسین نے موقف اختیار کیا ہے کہ اورنج لائن کامعاملہ انجینئرنگ یا سول انجینئرنگ کانہیں ہے،اصل مسئلہ تاریخی ورثے کا تحفظ ہے ، اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اس بات پرعدالت اور شکایت کنندگان ایک صفحے پر ہیں ،عدالت بھی تاریخی ورثے کاتحفظ چاہتی ہے،ماہرین پرتعصب کاالزام لگانے کی بجائے ان کی رپورٹ میں سقم کی نشاندہی کریں،دیکھنایہ ہے کہ شکایت کنندگان کے تاریخی ورثہ کے حوالے سے تحفظات درست ہیں کہ نہیں ،تحفظات درست نہ ہوئے تواٹھاکرپھینک دیں گے،جبکہ وکیل خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ ٹریک کے ستونوں کی تعمیراورٹرین کے چلنے سے پیداہونے والی تھرتھراہٹ کامجموعی جائزہ نہیں لیاگیا جسٹس شیخ عظمت سعید نے نیسپاک کے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ ایک گھنٹے میں کتنی ٹرینین ٹریک سے گزریں گی ،ایک گھنٹے میں گزرنے والی ٹرینوں کی مجموعی تھرتھراہٹ کتنی ہوگی ،نیسپاک کے وکیل اس نقطے پر جواب الجواب میں وضاحت کریں ، دوران سماعت جسٹس اعجاز افضل خان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی نے حضرت علی رضی اللہ سے پوچھا میرے سر کے بال کتنے ہیں،حضرت علی نے جواب دیا اگر بالوں کی تعداد بتا دوں تو آپ تصدیق کیسے کریں گے، اورنج ٹرین منصوبے سے متعلق رپورٹس کے غلط ہونے کا تعین کون کرے گا،منصوبے سے متعلق رپورٹس کو ماہر ہی دیکھ سکتا ہے جبکہ خواجہ احمد حسین کا کہناتھا کہ ڈاکٹر اوپل نے منصوبے کو محفوظ بنانے کیلئے مزید اقدامات کرنے کا کہا تھا، اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ آپ بتادیں مزید کیا اقدامات ہونے چاہیں،اس پر نیسپاک کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ نیسپاک حکومت کی جانب مزید اقدامات اٹھانے پر رپورٹ عدالت کو دے چکے ہیںجس پر جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ عدالت میں آدھی بات نہ کریں،آپ وہ والی بات کر رہے ہیں نماز کی طرف مت جاؤجبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ اورنج لائن کے پورے منصوبے کوختم کردیاجائے ،کیاصرف تاریخی ورثے کومحفوظ بنانے کے اقدامات اٹھائے جائیں اس پر خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ماس ٹرانزٹ کے منصوبے میں رکاوٹ نہیں ڈالناچاہتے،تاریخی عمارتوں کے سامنے میٹروٹریک کوزیرزمین گزاراجائے ،اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ زیرزمین میٹروٹرین کی تھرتھراہٹ زیادہ خطرناک ہوگی جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیازیرزمین تعمیرات اس وقت ہوسکتی ہیں تاریخی عمارتوں کی خوبصورتی متاثرہونے کاپیمانہ کیا ہے جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ میٹروٹرین کورولرکوسٹر نہ بنائیں،زمین سے 45فٹ اوپرچلنے والی ٹرین کو45فٹ زیرزمین لیے جانہ ممکن نہیں ،90فٹ کاغوطہ تورولرکوسٹر بھی نہیں لگاسکتا،جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ تاریخی ورثہ جتناآپ کاہے اتناہمارابھی ہے،مناسب وقت پرآپ کی آنکھیں کیوں نہ کھلیں ،اس طرح کے منصوبے عوام کے پیسے سے بنتے ہیں ،کیاعوام کے پیسے کوضائع کردیں ، اس پر خواجہ احمد حسین نے کہا کہ تاریخی ورثے کولے کرمیں جذبات کی رومیں بہہ جاتاہوں اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کے جذبات غلط ہیں، آپ نے غلط مثال دی ہے ہمیں معلوم ہے کہ تاریخی ورثے کونقصان ہواتوبوجھ ہم پربھی ہوگا ، درخواست گزار نے دوران سماعت پانامہ لیکس کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے پانامہ کے مقدمے میں کہا تھا کہ ایسا فیصلہ دیں گے جو 20سال تک یادرکھاجائے گا،اورنج ٹرین کیس کو بھی پانامہ کی طرح سنا جائے ،پانامہ کامقدمہ وزیراعظم اور ان کے بچوں سے متعلق تھا، اس پر جسٹس اعجاز فضل نے ریمارکس دیئے کہ پانامہ کامقدمہ ایک شخص کا معاملہ نہیں بلکہ قانون کا معاملہ ہے ایسا فیصلہ دیں گے جو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔

(جاری ہے)

عدالت عظمیٰ نے عدالتی وقت ختم ہونے کے باعث کیس کی مزید سماعت کل (بدھ ) تک کیلئے ملتوی کردی

متعلقہ عنوان :