چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے ملک میں پانی کی شدید قلت کا معاملہ پورے ایوان کی کمیٹی کو بھجوادیا

دنیا میں آئندہ جنگیں پانی پر ہوں گی ،ْہر حکومت نے پانی کے مسئلہ پر مجرمانہ غفلت کی ہے ،ْپانی کی تقسیم کا معاہدہ منصفانہ نہیں ،ْاراکین سینٹ پینے کے پانی کا مسئلہ بھی شدید ہو رہا ہے، ہمیں مل بیٹھ کر پانی کی قلت کے مسئلہ کا حل نکالنا چاہئے ،ْوزیر مملکت عابد شیر علی

پیر 17 اپریل 2017 23:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل اپریل ء)چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے ملک میں پانی کی شدید قلت کا معاملہ پورے ایوان کی کمیٹی کو بھجوادیاجبکہ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ پینے کے پانی کا مسئلہ بھی شدید ہو رہا ہے، ہمیں مل بیٹھ کر پانی کی قلت کے مسئلہ کا حل نکالنا چاہئے۔

پیر کو سینیٹر محسن عزیز نے اپنی اور دیگر ارکان کی طرف سے تحریک پیش کی کہ پاکستان میں پانی کی قلت کے معاملہ پر اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ کو زیر بحث لایا جائے۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے محسن عزیز نے کہا کہ پاکستان پانی کی قلت والے ممالک میں شامل ہے، پانی کے شدید مسائل کا شکار ہیں، یو این ڈی پی رپورٹ اس صورتحال کی سنگینی کو بیان کرتی ہے۔

(جاری ہے)

پانی کے استعمال میں بے شمار اضافہ ہوا ہے اور اس کی قلت بڑھتی جا رہی ہے۔ پانی کے ذخائر بہت کم ہیں، ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے جبکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے پاس لمبے عرصے کے لئے پانی کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ اس مسئلہ پر توجہ نہ دی گئی تو صورتحال بہت خراب ہو جائے گی۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پانی کی صورتحال پر خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے یا کسی کمیٹی کو یہ معاملہ بھجوایا جائے۔

چیئرمین نے کہا کہ وہ اس بارے میں غور کرکے فیصلہ کریں گے کہ کس کمیٹی کو یہ معاملہ بھجوایا جائے۔ محسن لغاری نے کہا کہ یہ دہشت گردی سے بھی اہم معاملہ ہے، ہم پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں، یہ مسئلہ دن بدن شدید ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا 80 فیصد پانی ان تین چار ماہ میں آتا ہے، ہمیں اس کو سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ دنیا میں آئندہ جنگیں پانی پر ہوں گی۔

ہر حکومت نے پانی کے مسئلہ پر مجرمانہ غفلت کی ہے۔ پانی کی تقسیم کا معاہدہ منصفانہ نہیں ہے۔ چھوٹے صوبوں کو پانی کا حصہ نہیں مل رہا۔ 70 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ بلوچستان کے 100 ڈیموں کی تعمیر کے لئے پیسہ نہیں مل رہا، اس معاملہ پر خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ اس مسئلہ پر توجہ دی جائے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ پانی کے مسئلہ پر توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں بہت سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان کے پاس صرف 30 دن کے لئے پانی ذخیرہ ہے، ہمیں ڈیم اور آبی ذخائر بنانے چاہئے تھے، ہمیں بڑے اور چھوٹے ڈیم بنانے پر وجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ نہروں کی لائننگ کی جائے، پینے کے پانی کو صاف بنایا جائے۔ سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ جس کمیٹی کو بھی یہ معاملہ بھجوایا جائے اسے واٹر سٹریٹجی کے لئے سفارشات مرتب کرنی چاہئیں۔

وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے پانی کی قلت کے حوالے سے تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پانی کی قلت انتہائی اہم مسئلہ ہے، آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ پانی کم ہو رہا ہے، کئی علاقوں میں زمینی پانی بھی کم ہو چکا ہے اور پینے کے پانی کا مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1960ء اور 1970ء کی دہائی کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہیں بن سکا۔

انہوں نے کہا کہ سیلابوں کی وجہ سے 52 ملین ایکڑ پانی ضائع ہو جاتا ہے جس سے سالانہ 62 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پانی ضائع بھی بہت کیا جاتا ہے۔ منگلا، تربیلا اور چشمہ کے بعد پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے کوئی ڈیم نہ بن سکا۔ دیامر بھاشا ڈیم کی زمین کے حصول کا 90 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس 30 دن کے پانی کے ذخائر موجود ہیں جو 130 دن ہونے چاہئیں۔

کیلیفورنیا میں بارشیں نہ ہوئیں تو گاڑی دھونے اور باغ کو پانی لگانے پر پابندی لگا دی گئی اور خلاف ورزی کرنے والے کو 5 ہزار ڈالر جرمانہ کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں پانی ضائع کیا جا رہا ہے، لوگ پانی کی کمی کو محسوس نہیں کرتے اور حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔ انہوں نے چیئرمین سینیٹ سے درخواست کی کہ آپ ایک ایسا فورم تشکیل دیں کہ جس میں صوبے بھی مل بیٹھ کر فیصلہ کریں اور پاکستان کو اس مشکل صورتحال سے نکالیں جس پر چیئرمین سینیٹ نے معاملہ پورے ایوان کی کمیٹی کو بھجوا دیا۔