مشال خان سمیت دیگر دو طلبا کے خلاف گستاخی کے حوالہ سے شواہد نہیں ملے،صلاح الدین محسود

اب تک 22 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں 16قاتل اور بڑے اہم کردار شامل ہیں قتل کے وقوعے سے پہلے سوشل میڈیا پر پولیس کو کچھ نہیں مل رہا تھا ،قتل کے بعد بہت کچھ کہا گیا جس کیلئے ہم نے ایف آئی اے سے مدد مانگی ہے،آئی جی خیبرپختونخوا کی پریس کانفرنس

پیر 17 اپریل 2017 17:20

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل اپریل ء)آئی جی خیبرپختونخواصلاح الدین محسود نے کہا ہے کہ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں گستاخ رسالت کے الزام میں قتل ہونے والے مشال خان سمیت دیگر دو طلبا کے خلاف گستاخی کے حوالہ سے کوئی شواہد نہیں ملے ۔سنٹرل پولیس آفس پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صلاح الدین محسود کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس کیس کے حوالے سے بڑی پیش رفت کی ہے اور گرفتار 22 ملزمان سے معلومات حاصل کی جاچکی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مشال خان کے قتل کے واقعے سے قبل یونیورسٹی انتظامیہ 3 طلبا مشال خان، عبداللہ اور زبیر کے خلاف اس حوالہ سے تفتیش کررہی تھی۔صلاح الدین محسود کا کہنا تھا کہ اس یونیورسٹی میں ڈسپلن کی شکایات آتی رہتی ہیں جس کے باعث پولیس کا بھی وہاں آنا جانا رہتا ہے حالانکہ یونیورسٹی نے سیکیورٹی کے لیے 50 سابق سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

تاہم اس کیس کے حوالے سے پولیس کو اس وقت اطلاع ملی جب بلوا ہوچکا تھا اور مشال کو قتل کیا جاچکا تھا جبکہ ہجوم لاش کی بے حرمتی کے درپے تھا لیکن پولیس افسران نے حکمت عملی اور زور کااستعمال کرکے لاش کو وہاں سے گاڑی کے ذریعے یونیورسٹی سے باہر بھیج دیا۔انھوں نے کہا کہ پولیس نے مشتعل طلبا کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کی اور 59 طلبا کو گرفتار کرکے تلاشی شروع کی جبکہ ان 59 طلبا میں چند کے کپڑے خون آلود تھے تاہم کنٹرول حاصل کرنے کے بعد یونیورسٹی کو خالی کرلیا گیا۔

مشال قتل کے حوالے سے گرفتاریوں پر بات کرتے ہوئے آئی جی کے پی کا کہنا تھا کہ اب تک 22 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں 16 قاتل بھی شامل ہیں جبکہ بڑے اہم کردار بھی شامل ہیں اس کے علاوہ مردان کے پولیس افسران قتل کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر میٹنگ کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کے دائرہ کار کو وسیع رکھا ہے اور تمام پہلوں کو ملحوظ نظر رکھا گیا ہے قتل کے وقوعے سے پہلے سوشل میڈیا پر پولیس کو کچھ نہیں مل رہا تھا لیکن قتل کے بعد بہت کچھ کہا گیا ہے جس کے لیے ہم نے ایف آئی اے سے مدد مانگی ہے۔

آئی جی کے پی کا کہنا تھا کہ ہم سائنسی خطوط پر تفتیش کررہے ہیں اور پولیس کسی لحاظ سے بھی اپنی محنت میں کمی نہیں لائے گی۔آئی جی کے مطابق نامزد ملزمان میں 16 جبکہ نشاندہی کی بنیاد پر 6 ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ مزید گرفتاریوں کیلئے دن رات چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ واقعہ میں زخمی ہونے والے طالب علم عبد اللہ نے 164 کے تحت اپنا بیان عدالت میں رکارڈ کروادیا ہے۔