ْ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوںک ے 246 ارب 90 کروڑ روپے کے ڈیڈ ڈیفالٹرز ہیں،

آڈٹ حکام کا انکشاف

جمعرات 10 اگست 2017 16:26

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعہ اگست ء)اسلام آباد(آئی این پی ) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے 246 ارب 90 کروڑ روپے کے ڈیڈ ڈیفالٹرز ہیں،سب سے زیادہ 86 ارب روپے کے ڈیفالٹرز کوئٹہ ریجن میں ہیں، سکھر 60 ارب اور پشاور میں بھی 60 ارب کے ڈیفالٹرز ہیں لاہور ریجن میں 40 ارب روپے کے ڈیفالٹرز ہیں، سیکریٹری بجلی نسیم کھوکھر نے بتایا کہ 246ارب 60کروڑ کی ریکوری ممکن نہیںہے کیونکہ یہ ڈیڈ ڈیفالٹرز ہیں،یا تو فیکٹری بند ہو گئی ہے یا کاروبار ختم ہو گیاہے، کمیٹی نے ریکوری کا طریقہ کار متعین کرنے کی ہدایت کردی ۔

آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ آزاد کشمیر حکومت 6 ارب 29 کروڑ کی ڈیفالٹر ہے،سیکریٹری بجلی نسیم کھوکھر نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ 39کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے ریکوری مقدمات عدالتوں میں ہیں، 10ارب 20 کروڑ کے کیسز نیب میں زیر التوا ہیں، ایک ارب ستر کروڑ ریکوری کیسز میں بجلی منقطع کر دی گئی، ہم نے زیر گردش قرضے اور لائن لاسسز کم کرنے کے لئے وزیر اعظم کو تجاویز دی ہیں،سیکریٹری وزارت نے اعتراف کیا کہ ہمارے پاس ریکوری کا صحیح میکنزم موجود نہیں جس کی وجہ سے مشکلات پیش آتی ہیں ،چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا کہ غریب صارف سے دو روپے یونٹ والی بجلی کے سات روپے یونٹ وصول کیئے جارہے ہیں، 35روپے لیٹر والا تیل 80روپے لیٹر فروخت کیا جاتا ہے،80فیصد صارفین غریب طبقہ ہے، سی پیک کی سیکیورٹی کے نام پر بجلی صارفین سے 17 ارب وصول کیئے جارہے ہیں، بجلی صارفین سے سیلز ٹیکس، پی ٹی وی فیس اور نہ جانے کیا کیا وصول کیا جارہا ہے، ہم غریب عوام کا تیل نکال کر سر پر لگا رہے ہیں، سر پر بال پھر بھی نہیں نکلیں گے، نیب حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ نیب نے نندی پور پاور منصوبے کی لاگت میں اضافے کی انکوائری مکمل کر لی رپورٹ منظوری کیلئے نیب کے ایگزیکٹیو بورڈ میں پیش کی جائے گی۔

(جاری ہے)

آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ نندی پور منصوبے کی لاگت میں 35 ارب روپے کا اضافہ ہوا، مجموعی طور پر منصوبے میں تاخیر سے 43 ارب 37 کروڑ کا نقصان ہوا، پی اے سی نے دس اکتوبر تک حتمی رپورٹ طلب کر لی ،تاخیر کے باعث ریونیو کی مد میں 7 ارب 32 کروڑ کا نقصان ہوا، نیب حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ انکوائری کے بعد تحقیقات ہوگی، پھر ریفرنس دائر کیا جائے گا، کمیٹی رکن شفقت محمود نے کہا کہ لائن لاسسز کم کرنا وزیر اعظم کا نہیں ڈسکوز کا کام ہے ،نو دس ماہ میٹر چیک نہیں ہوتے پھر اکٹھا لاکھ روپے کا بل بھیج دیا جاتا ہے ، چیئرمین واپڈا نے پی اے سی کو آگاہ کیا کہ نیلم جہلم منصوبے کی ابتدائی لاگت 84 ارب تھی، اس وقت لاگت 476 ارب ہے جو 500 ارب تک پہنچ جائے گی،2005 کے زلزلے کے بعد منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی کرنا پڑی، یکم فروری 2018 کو منصوبہ پیداوار شروع کر دے گا، منصوبے سے 969 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی، چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا کہ نیلم جہلم منصوبے میں سب سے زیادہ ظلم ہوا، لاگت میں بے تحاشہ اضافے کے باوجود 15 سال میں مکمل نہیں ہوسکا،اس منصوبے کا سرچارج غریب عوام سے وصول کیا جارہا ہے۔

جمعرات کوپارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں وزارت پانی و بجلی کے مالی سال 2013-14کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس 35منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا، کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس میں تاخیر ہوئی، سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ معذرت کرلیں، جس پر کمیٹی چیئرمین خورشید شاہ نے کہا کہ میں روزانہ معذرت کرتا ہوں، اجلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ 246ارب روپے سے زائد رقم ڈیڈ ڈیفالٹرز کے ذمے ہیں، جس میں اب تک 41ارب روپے وصول کئے گئے ہیں، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ذمے یہ رقم واجب الادا ہے، کمیٹی رکن سید نوید قمر نے کہا کہ وزارت کو اس معاملے میں ہمت دکھانی ہو گی، پوری دنیا میں رقوم واجب الادا ہوتی ہیں، مگر ان کا کسی وصولی کا طریقہ کار بھی ہوتا ہے، جس پر سیکرٹری وزارت نے بتایا کہ وزیراعظم کی جانب سے دو روز قبل بھی اس پر وزارت کے ساتھ اجلاس میں بات چیت ہوئی ہے جس میں یہ رقم چھوڑنے یا وصولی کے حوالے سے طریقہ کار متعین کیا جائے گا۔

شفقت محمود نے کہا کہ واجب الادا رقم گردشی قرضوں کے اضافے کا موجب ہے، ریکوری کی ذمہ داری وزیراعظم کی نہیں ، یہ ذمہ داری ڈسکوز کی ہیں، میٹر چل رہے ہیں میٹر تو فوت نہیں ہوئے، میرے دفتر میں 9ماہ بعد بجلی کا بل آیا اور لیسکو نے کہا کہ 9ماہ میٹر ہی چیک نہیں کیا گیا، سی ای او لیسکو نے بتایا کہ روٹین میں میٹر چیک ہوتا ہے اور میٹر ریڈر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

شفقت محمود نے کہا کہ یہ تو درست نہیں ،سب کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے۔ لیسکو حکام نے بتایا کہ اب بہتری ہو رہی ہے۔ سیکرٹری وزارت نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارے پاس کچھ ڈسکوز ایسے ہیں جن کی کارکردگی بہتر ہے، مگر کچھ کی کارکردگی متاثر کن نہیں ہے، ڈیڈ ڈیفالٹرز سے وصولی ممکن نہیں ہے، یا تو فیکٹری بند ہو گئی ہے یا کاروبار ختم ہو گیا۔ عبدالرشید گوڈیل نے کہا کہ غریب آدمی2 ماہ بل نہ دے تو اس کی لائن اور میٹر کاٹ دیا جاتا ہے، اس میں سٹاف ملوث ہے، ہزاروں روپے بل والے کا میٹر کاٹ دیتے ہیں اور لاکھوں روپے بل والے کو چھوڑ دیا جاتا ہے، غریب کا تماشہ بنا دیا جاتا ہے۔

سیکرٹری وزارت نے کہا کہ جب تک ہم ڈیجیٹل کی طرف نہیں جائیں گے معاملات حل نہیں ہوں گے، ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے تعاون سے اس پروگرام کو شروع کیا جا رہا ہے۔ اعظم سواتی نے کہا کہ فیکٹری والے بڑے صارف اتنے پیسے لے کرچلا جائے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ سیکرٹری وزارت نے کہا کہ کیس نیب کو بھیج رہے ہیں، اعظم سواتی نے کہا کہ نیب اور عدالت میں بھیجنا اور اس کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔

سیکرٹری وزارت نے اعتراف کیا کہ ہمارے پاس ریکوری کا طریقہ کار نہیں ہے۔ اعظم سواتی نے کہا کہ بڑے لوگوں کے خلاف کارروائی کریں۔ سردار عاشق گوپانگ نے کہا کہ نیب کو بھیجے گئے کیسز کے رزلٹ کیا آئے ہیں۔ سیکرٹری وزارت نے بتایا کہ گزشتہ چار سالوں میں نقصان اور ریکوری میں کارکردگی بہتر ہوئی ہے،2016-17میں 94.09فیصد ریکوری تھی، آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ آزاد کشمیر کی حکومت کی جانب 62ارب روپے سے زائد کے بقایا جات ہیں۔

چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا کہ سیپکو کے 60ارب کے بقایا جات ہیں، اس میں سندھ حکومت کی جانب سے دیئے گئے پیسے بھی اس میں شامل ہیں، سی ای او سیپکو نے کمیٹی کو بتایا کہ 38ارب روپے نجی سیکٹرز کی طرف بقایا جات تھے، جن میں سے 25ارب وصول کرلئے گئے ہیں،13ارب روپے کے بقایا جات موجود ہیں، سرکاری اداروں کے ذمے 22ارب روپے کے بقایا جات تھے، جو کہ سندھ حکومت نے ادا کر دیئے ہیں، جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر سندھ حکومت نے ادائیگی کر دی ہے تو پھر آڈٹ اعتراض کو اپ ڈیٹ کیوں نہیں کیا گیا، آئندہ اپ ٹو ڈیٹ آڈٹ اعتراضات کمیٹی میں لائے جائیں، محکمانہ اکائونٹس کمیٹی میں تمام آڈٹ اعتراضات کو حتمی شکل دی جائے۔

سی ای او لیسکو نے بتایا کہ 92فیصد تک کی ریکوری ہو چکی ہے، چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا کہ ملک میں ظلم و جبر ہو رہا ہے، ہم سے بھی کہا ہے مگر اب بڑھتا جا رہا ہے، جی ایس ٹی 17فیصد ہے اور پی ٹی وی فیس سب پہ لگ رہی ہے، ٹیکسوں کے معاملے پر سب کو جیل جانا چاہیے، اتنے ٹیکس اور ڈیوٹیز لگائے جا رہے ہیں، تمام منصوبوں پر لاگت غریبوں سے لے رہے ہیں، بجلی مہنگی ہونے سے ریکوری کا مسئلہ ہے اس کا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا جاتا ہے، ڈائریکٹ ٹیکسز کے بجائے ان ڈائریکٹ ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، غریب کو 45روپے پٹرول اور ڈیزل مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے،80فیصد غریب آدمیوں کا تیل نکال کر ہم سر پر لگا رہے ہیں، عوام کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے، وزارت پانی و بجلی سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ وزارت خزانہ سے پوچھیں، یہ معاملہ اسمبلی میں اٹھانے کا ہے۔

شفقت محمود نے کہا کہ متبادل توانائی کے ذرائع کا ہر کام کرنے والا متبادل توانائی بورڈ بند کر دیا۔ سیکرٹری بجلی نے بتایا کہ بورڈ کی کارکردگی ایسی تھی کہ بند کر دیا، متبادل توانائی کے ذرائع یہ کام کر رہے ہیں، کیونکہ متبادل توانائی کے ذرائع ضروری ہیں،چین اور بھارت میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔