ٹرمپ انتظامیہ نے افغان جنگ میں چینی دہشتگردوں کو ہدف بنایا،امریکی فوجی حکام

اتوار 11 فروری 2018 19:20

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ اتوار 11 فروری 2018ء)امریکی فوجی افسران اور تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ 16 سال سے جاری افغان جنگ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حکمت عملی میں جو تبدیلی کی گئی ہے اس کے تحت افغانستان میں امریکی بمباری مہم میں غیر معروف چینی دہشتگردوں کے گروپ کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق اتوار کو اعلیٰ امریکی فوجی عہدیداروں کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ 16 سال سے جاری افغان جنگ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حکمت عملی میں جو تبدیلی کی گئی ہے اس کے تحت افغانستان میں امریکی بمباری مہم میں غیر معروف چینی دہشتگردوں کے گروپ کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ 2 فروری کو شمال مشرقی افغانستان کے دور دراز پہاڑی صوبے بدخشاں میں ضلع وردج میں ٹریننگ کیمپوں اور لڑائی کے اہداف پر فضائی حملے شروع کیے گئے تھے۔

(جاری ہے)

واضحرہے کہ یہ علاقہ دیگر حصوں کی نسبتاً پر امن سمجھا جاتا تھا لیکن 2015 میں طالبان نے یہاں پر قبضہ کرلیا اور اب یہ جگہ طالبان اور علیحدگی پسند گروپوں کے گھروں کے طور پر جانا جاتا ہے، جہاں مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ ( ای ٹی ا?ئی ایم) اور ترکستان اسلامک پارٹی ( ٹی ا?ئی پی) دونوں ا?باد ہیں۔

اس حوالے سے کابل میں امریکی زیر اثر فوجی ہیڈکوارٹر کے ڈائریکٹر فیوچر ا?پریشن، ایئر فورس بریگیڈیئر جنرل لانس بنچ کا کہنا تھا کہ طالبان اور ای ٹی ا?ئی ایم سہولیات پر غور کرکے مل کر کام کرتے تھے جبکہ امریکا کی جانب سے افغان فوجیوں کو فراہم تین ہمویز اور رینجز کو فراہم کردہ فورڈ پک اپ ٹرکس پر قبضہ کرکے انہیں خودکش دھماکوں میں استعمال بھی کیا تھا۔

واضح رہے کہ ای ٹی ایم نسلی یوگر عسکریت پسندوں پر مشتمل گروپ ہے جو چین کے مغربی علاقے سنکیانگ یا اس کے قریب ایک الگ ریاست قائم کرنا چاہتا ہے۔انہوں نے ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں کہا کہ’ جو کوئی بھی افغانستان کا دشمن ہوگا، ہم اسے نشانہ بنائیں گے، اب ہمیں نئی انتظامیہ ملی ہے جو ہمیں طالبان اور ای ٹی ا?ئی ایم کو نشانہ بنانے کی اجازت دیتی ہے، جو پہلے سمجھتے تھے کہ وہ محفوظ ہیں‘یاد رہے کہ امریکی صدر کی جانب سے اس نئی انتظامیہ کی منظوری اگست میں دی گئی تھی، جس کے بعد امریکا کی جانب سے فضائی مہم میں اضافہ دیکھا گیا تھا، تاہم امریکی حکام کی جانب سے اس بات سے انکار کیا گیا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

اس حوالے سے سروس کے اعداد و شمار کے مطابق امریکی فضائیہ کی جانب سے گزشتہ برس افغانستان میں 4ہزار 361 دفعہ بمباری کی گئی جبکہ 2016 میں یہ تعداد ایک ہزار 337 اور 2015 میں 947 تھی۔اس گروپ کے بارے میں دی لونگ وار جرنل کے سینئر ایڈیٹر تھومس جوسیلین کا کہنا تھا کہ اس گروپ کے امیر عبدالحق الترکستانی کو مانا جاتا ہے، جو القاعدہ کی قیادت کونسل میں سے ہے اور اس نے 2009 میں اپنے دیگر دہشت گرد ساتھیوں کے ساتھ مل کر محکمہ خزانہ پر حملہ کیا تھا جبکہ گروپ کی جانب سے 2008 میں بیجنگ میں سمر اولمپکس پر حملے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔

دوسری جانب اسکالرز کے ووڈرو ولسن بین الاقوامی سینٹر میں دہشتگرد گروپوں پر تجزیہ کرنے والے مائیکل کوگلمن کا کہنا تھا کہ یہ گروپ بہت تیزی سے پھیلا ہے اور میں دہشتگرد تنظمیموں کے کئی افراد شامل ہیں جبکہ ان کا مقصد مقامی سطح پر ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ القاعدہ کے حامی کسی گروپ کو ہلکا لینا چاہیے‘۔مائیکل کوگلمن کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں کئی ایسے اہداف موجود ہیں، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گزشتہ کچھ سالوں میں افغاستان کی سیکیورٹی صورتحال بہت خراب ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی حیران کن ہے کہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کی تعداد میں وسیع پیمانے پر اضافہ ہوا جبکہ کئی سالوں تک افغانستان کے جنوبی اور جنوب مشرقی حصوں پر طالبان کا قبضہ تھا لیکن حالیہ برسوں میں طالبان کی جانب سے نئی مقامات پر جگہیں بنائی گئی ہیں۔اس بارے میں افغانستان میں اتحادی فضایہ کے کمانڈر ایئرفورس میجر جنرل جیمس ہیکر نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حال ہی میں امریکی انٹیلیجنس کی جانب سے اپنے مخصوص اہداف کے حوالے سے امریکی کمانڈرز کو مزید معلومات فراہم کی گئی ہے جبکہ امریکا نے اپنے جہازوں میں ایم کیو 9 ریپر ڈرون اور اسکواڈرن اے 10 سی کو بھی جنوبی افغانستان میں حملوں میں استعمال کرنے کے لیے شامل کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم موجودہ وسائل سے طالبان کی قیادت اور ان کے زیر اثر علاقوں کو تباہ کرسکتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ہم تربیتی کیمپوں کے قلب میں حملہ کرسکتے ہیں، جہاں وہ نوجوانوں کی برین واشنگ کرکے انہیں خود کش حملوں کے لیے تیار کرتے ہیں

متعلقہ عنوان :