بلوچستان اسمبلی ، سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الحسن کے گھر پر فائرنگ کے واقعہ کے خلاف،اورزرعی آمدن پر ٹیکسوں،زمین داروں کے واجبات کو معاف کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے سے متعلق قراردادیں منظور کر لی گئیں

ایوان میںایس ٹی ایس پاس ہڑتالی امیدواروں کے معاملے پر بنائی جانے والی کمیٹی کی رپورٹ ترمیم کے ساتھ منظور

ہفتہ 21 اپریل 2018 20:22

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ ہفتہ 21 اپریل 2018ء)بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الحسن کے گھر پر فائرنگ کے واقع کے خلاف،اورزرعی آمدن پر ٹیکسوں،زمین داروں کے واجبات کو معاف کر نے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے سے متعلق قراردادیں منظور کر لی گئیں،ایوان میںایس ٹی ایس پاس ہڑتالی امیدواروں کے معاملے پر بنائی جانے والی کمیٹی کی رپورٹ ترمیم کے ساتھ منظور ، بلوچستان اسمبلی کا اجلاس پینل آف چیئر مین کی رکن محترمہ یاسمین لہڑی کی زیر صدارت پچاس منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا ۔

اجلاس میںقائمہ کمیٹی برائے تعلیم خواندگی و غیر رسم تعلیم ، کوالٹی ایجوکیشن ، صدارتی پروگرام سائنس اور انفامیشن ٹیکنالوجی کی چیئرپرسن کی غیر موجودگی میںمعصومہ حیات نے محکمہ تعلیم میں این ٹی ایس پاس ہڑتالی امیدواروں سے متعلق قائمہ کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جس پر اظہار خیال کرتے ہوئے پشتونخوا میپ کے سید لیاقت آغا نے کہا کہ این ٹی ایس امتحانات میں پچاس ہزار لوگ پاس جبکہ43ہزار امیدوار فیل ہوئے پاس ہونے والوں میں سے جو لوگ میرٹ پر آئے انہیں لگادیا گیا لیکن کمیٹی کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ امیدواروں کو یونین کی سطح پر لیا جائے لیکن کیا محکمہ تعلیم میں اتنی آسامیاں خالی بھی ہیں یا نہیں ایسا کرنے سے دھاندلی کا خدشہ بڑھ جائے گا ۔

(جاری ہے)

ہر ضلع میںاول تا ساتویں پوزیشن پر آنے والے امیدواروں کی لسٹ جاری کی جائے ۔جمعیت علماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ کمیٹی کے اجلاس میں بھی معاملے پر اختلافات آئے ہیں یہ معاملہ2015ء کا ہے جنہوں نے دھاندلی کی وہ آج بھی بدستور عہدوں پر براجمان ہیں اور مراعات لے رہے ہیں میری تجویز ہے کہ پہلے انکوائری کی رپورٹ آنے دی جائے اس کے بعد بھرتیوں کے عمل کو آگے بڑھایا جائے ۔

پشتونخوا میپ کے ڈاکٹر حامدخان اچکزئی نے کہا کہ کمیٹی کی سفارشات سے نئے امیدواروں اور بے روزگاروں کی حق تلفی ہوگی اس وقت محکمے میں پانچ ہزار آسامیاں ہیں لیکن امیدوار 50ہزار ہیں تو کیا ہم انہی امیدواروں کو بھرتی کریں گے ایسا کرنے سے ایک بار پھر گھپلا ہونے کا خدشہ ہے ۔صوبائی وزیر شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ ایسی بات نہیں کہ پبلک سروس کمیشن میں بھی گھپلے ہوجاتے ہیں این ٹی ایس کے بارے میں ان کے اپنے لوگوں نے انکشاف کیا ہے کہ وہ پیسے لے کر پوزیشن دیتے ہیں جو لوگ این ٹی ایس امتحانات میں پاس ہوئے اور میرٹ پر آگئے ان کے آرڈر تو ہوچکے ہیں لیکن جو لوگ تعینات نہیں ہوئے ان کو چاہئے کہ وہ تیاری کریں اور دوبارہ سے آئندہ ٹیسٹ میں حصہ لیں ۔

پشتونخوا میپ کے سردار رضا محمد بڑیچ نے کہا کہ اس تمام معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں ضلع اور یونین کونسل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے واضح کیا جائے کہ کس بنیاد پر میرٹ لسٹ بنائی جائے گی ۔ پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ سفارشات کا پہلا حصہ منظور کیا جائے لیکن انکوائری کون کرے گا اس کی مدت کب تک ہوگی یہ بات بھی واضح کی جائے ۔

وزیر تعلیم طاہرمحمودخان نے کہا کہ میں اس بات سے متفق ہوں کہ تحقیقات کرائی جائیں ہر یونین کونسل اور ضلع میں پہلے پانچ میرٹ پر آنے والے افراد کو کیسے ایڈجسٹ کریں گے جب تمام معاملہ مشکوک ہے انکوائری کی مدت واضح کرکے ہڑتال کرنے والوں کی ہڑتال ختم کرائی جائے انکوائری سے انہیں بھی حوصلہ ملے گا۔ جس کے بعد کمیٹی کی رپورٹ میں مرتب کردہ سفارشات میں ایک ماہ میں این ٹی ایس بھرتیوں کے معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرنے کی ترمیم کی گئی اوربعدازاں ایوان نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دے دی ۔

اجلاس میں میر سرفراز بگٹی ، طاہر محمودخان ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، رحمت صالح بلوچ،حاجی اسلام اور ولیم جان برکت کی مشترکہ قرار داد نیشنل پارٹی کے حاجی محمد اسلام بلوچ نے ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان 15اپریل2018ء کو جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اس طرح کے بزدلانہ فعل سے صوبے کے عوام اور پورے ملک میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے نیز اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو انصاف کی فراہمی سے کوئی بھی نہیں روک سکتا ۔

یہ ایوان اس طرح کے بزدلانہ اور اوچھے ہتھکنڈوں کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور ساتھ ہی وفاقی حکومت سے مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ اس قسم کی بہیمانہ نوعیت کی تمام کارروائیوں میں ملوث مجرموں کی گرفتاری کو یقینی بنائے ۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ولیم جان برکت نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کے معزز ججز بھی محفوظ نہیں ہیں تو عام شہریوں کے تحفظ کا تصور اسی سے کیا جاسکتا ہے ملک کی سیکورٹی صورتحال کو از سرنو دیکھا جائے انہوں نے کہا کہ ملک کے فیصلے کرنے والوںپر حملے لمحہ فکریہ ہیں ایسے واقعات کا تدارک ہونا چاہئے ۔

قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے اراکین اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران ، شیخ جعفرخان مندوخیل ، میر عاصم کرد گیلو ، حاجی محمد اسلام بلوچ نے کہا کہ اس طرح کے واقعات باعث تشویش اور قابل مذمت ہیں اس طرح کے واقعات کی تحقیقات ہونی چاہئیں اراکین اسمبلی نے عدالت عظمیٰ کی جانب سے اراکین اسمبلی و دیگر شخصیات کی سیکورٹی واپس لینے کے فیصلے پرتحفظات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ چالیس برسوں سے ہم حالت جنگ میں ہیں یہاں بدامنی کے بے شمار واقعات پیش آئے ہیں جن میں سٹنگ ایم پی ایز کوبھی ہدف بنا کر قتل کیا گیا جبکہ دیگر شخصیات کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ان حالات میں سیکورٹی واپس لینے کے فیصلے سے عوامی نمائندوں میں تشویش پائی جاتی ہے ۔

اس موقع پر چیئر پرسن یاسمین لہڑی نے عدلیہ سے متعلق ادا کئے گئے تمام ریمارکس حذف کرنے کی رولنگ دی جبکہ اراکین اسمبلی کے اظہار خیال کے بعد قرار داد کو ایوان کی مشاورت سے متفقہ طو رپر منظور کرلیا گیا ۔اجلاس میں جمعیت العلماء اسلام کی رکن حسن بانو رخشانی نے کہا کہ 19تاریخ کے اجلاس میں دو ممبران میں کسی بات پر بحث مباحثہ ہوا مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی ایک دوسرے کے خاندانوں پر بات لیجانا مناسب نہیں ایوان میں ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں ۔

انہوں نے چیئر پرسن سے اپیل کی کہ ان ممبران کو چیمبر میں بلا کر ان کی غلط فہمیاں دور کردیں ۔ انہوںنے کہا کہ پروفیسر شگفتہ نے میڈیاپر آکر بلیک میلنگ کی حقیقت یہ ہے کہ نہ انہوں نے ہم پر احسان کیا نہ ہم نے ان پر احسان کیا ہے ۔ وہ تنخواہ کے عیوض خدمات سرانجام دیتی رہیں ٹائم پیریڈ سب کا ہوتا ہے چاہے ہم سیاستدان ہوں یا سرکاری ملازمین ہمیں مدت کے اختتام پر احتجاج کا کوئی حق نہیں ۔

انہوںنے استفسار کیا کہ اسمبلی کی مدت پوری ہورہی ہے کیا ہمیں بھی احتجاج کرنا چاہئے ۔انہوںنے کہا کہ اگر ڈاکٹر شگفتہ نے خدمت کرنی ہے تو میں دعوت دیتی ہوں کہ پسماندہ علاقوں میں جا کر خدمت کریں ہم بنگلہ بھی دیں گے لاکھوں روپے تنخواہ بھی دیں گے شہر میں بیٹھے ہوئے ہم سب لوگ دھڑلے سے کہتے ہیں کہ ہم خدمت کرتے ہیں آپ دور دراز علاقوں میں جا کر خدمت کریں اجلاس میں صوبائی وزیر میر عاصم کرد گیلو نے مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بلوچستانکے معاشی حالات پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں انتہائی کمزور ہیں لوگوں کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر زراعت پر منحصر ہے بلوچستان کی32اضلاع میں سے صرف چار اضلاع میں نہری پانی موجود ہے جبکہ دیگر کم و بیش25اضلاع میں زراعت کا دارومدار ٹیوب ویلوں پر ہے بجلی کی کمی کا سلسلہ کسی سے پوشیدہ نہیں نیز بارشوں کی کمی کی وجہ سے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔

ہمارے زمیندار کاشت کار انتہائی مشکل حالات میں اپنی زندگی بسر کررہے ہیں حکومت بلوچستان نے سال2001ء سے زرعی آمدن پر انکم ٹیکس لگادیا ہے جو80ہزار روپے سے زیادہ آمدن والے کاشتکاروں پر لاگو ہوتا ہے جبکہ تین لاکھ سے زیادہ آمدن والے کاشت کار پر پندرہ فیصد ٹیکس لگتا ہے جو کہ انتہائی زیادہ ہے اور ہمارے کاشت کار اس کی ادائیگی کے قابل نہیں حخومت بلوچستان کے واجبات دن بدن کاشتکاروں کے ذمے اضافہ ہوتا جارہا ہے اس سلسلے میں کاشت کاروں کے لئے ادائیگی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوگا اور پھر زمیندار مجبوراؒ احتجاج کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ہڑتالوں پر نکلیں گے جس کی وجہ سے حالات خرابی کی طرف جاسکتے ہیں مزید برآں یہ وقت کاش کاروں کو سہولت فراہم کرنے کا ہے نہ کہ ان سے ٹیکس وصول کرنے کا ۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ٹیکسوں کے علاوہ زمینداروں سے آبیانہ عشر پہلے ہی وصول کیا جارہا ہے ۔لہٰذا صوبائی حکومت ان ٹیکسوںکے علاوہ زرعی آمدن ٹیکس 2001ء کو فوری طور پر واپس لے اور تمام زمینداروں کے واجبات کو معاف کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ زمینداروں کی مشکلات کا سدباب ممکن ہوسکے۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ صوبے کے صرف چار اضلاع میں نہری نظام ہے جبکہ باقی پورے صوبے میں ٹیوب ویلوں کے ذریعے زیر زمین پانی حاصل کیا جاتا ہے دوسری جانب کچھ عرصہ قبل کئی سال طویل خشک سالی کا سلسلہ رہا جس میں زرعی شعبے کو بری طرح سے نقصان پہنچا لاکھوں درخت کاٹ دیئے گئے لاکھوں جانور مر گئے جس کی وجہ سے زمیندار پریشان ہیں مالی بدحالی کے شکار زمیندار اب تو بجلی کے بل بھی ادا نہیں کرسکتے اتنے بھاری ٹیکس کہاں سے اداکرسکتے ہیںانہوں نے مطالبہ کیا کہ زمینداروں پر عائد ٹیکس فوری طور پر واپس لیا جائے ۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سردار غلام مصطفی ترین نے کہا کہ یہ ٹیکس واپس لیناصرف اس ایوان کا نہیں بلکہ پورے صوبے کے عوام کا مطالبہ ہے زرعی شعبے سے ہمارے عوام کا روزگار وابستہ ہے خشک سالی اور بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے زمینداروں اور زرعی شعبے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے زرعی شعبے سے وابستہ افراد رروزگار ختم ہونے پر شہروں کا رخ کررہے ہیں اگر ہمارے صوبے میں ڈیمز بنائے جاتے تو آج یہ حالات نہ ہوتے ۔

دوسری جانب پورے پیسے لینے کے باوجود زمینداروں کو صرف دو گھنٹوں کے لئے بجلی فراہم کی جارہی ہے جس سے ہماری گندم کی فصل تباہ ہوگئی ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ ٹیکس واپس لے کر زمینداروں کو دھ گھنٹے بجلی فراہم کی جائے ۔ نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ ہمارے عوام کا دارومدار زراعت پر ہے شدید مشکلات سے دوچار زرعی شعبے پر پندرہ فیصد ٹیکس نامناسب ہے لہٰذا فوری طو رپر یہ واپس لیا جائے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ 2001ء میں عائد ٹیکس ادا کرنا ہمارے زمینداروں کے بس کی بات نہیں جس کی وجہ سے ان کے ذمے واجبات بڑھتے جارہے ہیں ہمارا صوبہ آٹھ سالہ طویل خشک سالی کا شکار رہا لاکھوں درخت کاٹ گئے لاکھوں مویشی مر گئے ہمارا پورا نظام تباہ ہوگیا عوام اپنے گھروں سے در بدر ہوگئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس ٹیکس کو فوراًواپس لیا جائے ۔

سابق صوبائی وزیر میر اظہار کھوسہ نے سندھ اور بلوچستان میں ٹیکسوں کا موازنہ پیش کرتے ہوئے اعدادوشمار کے ذریعے بتایا کہ سندھ کے مقابلے میں بلوچستان میں ٹیکسز کئی گنا زیادہ ہیں سندھ میں 16ایکڑ زرعی زمین پر کوئی ٹیکس نہیں جبکہ یہاں یہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے دریائے سندھ کا پانی جو سندھ میں استعمال ہوتا ہے اس پر ٹیکس نہیں مگر ہمارے ہاں اس پر ٹیکس ہے جو ناانصافی ہے ۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ڈاکٹر حامدخان اچکزئی نے کہا کہ ایران میں ایک سالہ خشک سالی کے بعد زمینداروں کو ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا مگر ہمارے ہاں کئی سالوں تک مسلسل خشک سالی کے باوجود زمینداروں سے ٹیکس وصول کئے جارہے ہیں پورے پیسے لے کر زمینداروں کو بمشکل چار پانچ گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے زرعی شعبہ تباہ ہوچکا ہے انہوںنے زور دیا کہ پورے صوبے میں سروے کرکے ڈیمز بنائے جائیں تاکہ بارانی پانی کو محفوظ اور زیر زمین پانی کی سطح کو بہتر بنایا جاسکے۔

جے یوآئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ بجلی اور زرعی مد میں بہت زیادہ بقایہ جات ہیں کاشتکاروں کی آمدنی انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے دیہی آبادی بھی شہروںکی طرف آرہی ہے اور رش بڑھتا جارہا ہے لہٰذا زرعی ٹیکس معاف ہونا چاہئے وزیراعلیٰ سے گزارش ہے کہ وہ صوبے کے کاشتکاروں پر احسان کرتے ہوئے زرعی ٹیکس کا خاتمہ کرکے جائیں بعدازاں ایوان نے مشترکہ قرار داد کو متفقہ طو رپر منظور کرلیا ۔

اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے غیر اعلانیہ طو رپر رات گئے پریشر کم کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ دنوں میرے حلقے میں ایک گھر میں دھماکہ بھی ہوا جس کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق جبکہ دوسرا شدید زخمی ہوا اس واقعے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے گیس پریشر میں کمی اور بندش سے متعلق پیشگی اطلاع نہیں دی جاتی میری اپیل ہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے جی ایم کو بلا کر مسئلے سے آگاہ کیا جائے ۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سید لیاقت آغا نے پوائنٹ آف آرڈر پر ایوان کی توجہ پشین میں بجلی کی صورتحال کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اس وقت پشین میں بجلی کانظام درہم برہم ہے زمینداروں کو بمشکل چار گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے مگر اس دوران بھی وولٹیج کم ہونے کی وجہ سے زرعی مشینری کو بری طرح سے نقصان پہنچ رہا ہے انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال اسی دوران کیسکو حکام کو یہاں بلا کر ان سے پشین میں بجلی کی فراہمی کا ٹائم ٹیبل طے اور وولٹیج بہتر بنانے پر بات ہوئی تھی اب ایک مرتبہ پھر کیسکو چیف اور پشین کے زمینداروں کو یہاں بلا کر ان کی ملاقات کرائی جائے یا وزیراعلیٰ ہائوس میں وزیراعلیٰ کی موجودگی میں یہ ملاقات ہو تاکہ ایک مرتبہ پھر ٹائم ٹیبل طے اور وولٹیج کو بہتر بنایا جاسکے ۔

چیئر پرسن یاسمین لہڑی نے کہا کہ کیسکو چیف کو اس مسئلے پر ارکان اسمبلی کو بریفنگ دینے کے لئے خط لکھا جائے گاتاریخ طے ہونے پر ارکان کو آگاہ کردیا جائے گا۔بعدازاں اجلاس منگل کی سہ پہر چار بجے تک ملتوی کردیا گیا ۔