بار کونسل میرے خلاف کھڑی ہو گئی ، قرار دادوں سے تکلیف ہوئی ، چیف جسٹس

بنیادی مسائل اور مفاد عامہ کے معاملات دیکھ رہا ہوں ،کیا یہ جرم ہے ،لاء کالجز اصلاحات کیس میں ریمارکس

منگل 24 اپریل 2018 19:36

اسلام آ باد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل 24 اپریل 2018ء)سپریم کورٹ میں لاء کالجز میں اصلاحات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران بارکونسلز سے خوب گلے شکوے کیے، چیف جسٹس نے کہا آگر بنیادی مسائل اور مفاد عامہ کے معاملات کو دیکھ رہا ہوں تو کیا یہ جرم ہے میری بار کونسل میرے خلاف کھڑی ہو گئی ہیں بار کونسلز کی قرار دادوں سے تکلیف ہوئی ہے ۔

(جاری ہے)

منگل کے روز سپریم کورٹ میں لاء کالجز میں اصلاحات سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بلوچستان میں میٹرک تک 11 ہزار مجموعی سکولز ہیں، 6400 سکولز میں نہ چار دیواری ہے نہ پانی اور نہ ہی باتھ روم، اگر میں بنیادی مسائل و مفاد عامہ کو دیکھ رہا ہوں تو کیا یہ جرم ہے، میری بار کونسلز میرے خلاف کھڑی ہوگئی ہیں، بار کونسلز کی قرار دادوں سے تکلیف ہوئی ہے، پتہ نہیں کیا سیاسی ایجنڈہ ہے مجھے نہیں پتہ، میں اس طرف نہیں جانا چاہتا، چیف جسٹس نے کہا کہ وکلائ بتائیں اگر ازخود نوٹس نہ لوں تو آئینی درخواست دائر کریں، میرا خودنمائی سے کوئی تعلق نہیں ہے آج میں نے پمز امراض قلب کے ایشو کو اجاگر کیا، میں نے رپورٹرز کو تنخواہوں کی ادائیگی کی بات کی، صحافیوں کو تین تین ماہ تنخواہ نہیں ملتی، میں نے بچوں کی تعلیم اور ادویات کی فراہمی کی بات کی، چیف جسٹس نے کہا کہ مفاد عامہ کے علاوہ میرا کوئی مقصد نہیں، میں نے سرکاری گاڑیوں کی تفصیلات مانگیں، ستائیس گاڑیاں چھپا دی گئیں، چیف جسٹس نے کہا پمز میں لیور ٹرانسپلانٹ سینٹر نہ ہونے پر چھ سو ملین لوگ نجی ہسپتالوں میں جاتے ہیں، مفاد عامہ کی بات کرتا ہوں یہ کونسا جرم ہے، ٹھیک ازخود نوٹس نہیں لیتے لیکن جہاں قانون کی خلاف ورزی ہوگی نوٹس لیں گے دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تعلیمی اصلاحات کیلئے کام کر رہے ہیں، تعلیمی اصلاحات پر حکومت کو تجاویز دیں، تعلیمی اصلاحات کرنا ہمارا کام نہیں ہے لیکن غیر معیاری لائ کالجز نہیں چلنے دیں گے بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت دس مئی تک ملتوی کردی۔