پاکستان میں اغواء برائے تاوان کی وارداتیں افغانستان سے کنٹرول کئے جانے کا انکشاف

افغانستان سے متصل سرحد پر پاکستانی چیک پوسٹوں کے قیام کے بعد اغواء اور دیگر جرائم میں ملوث افراد تاوان کی وصولی اور مغویوں کی حوالگی بھی افغانستان میں ہی کرنے لگے

منگل 24 اپریل 2018 22:43

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل 24 اپریل 2018ء) پاکستان میں اغواء برائے تاوان کی وارداتیں افغانستان سے کنٹرول کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے افغانستان سے متصل سرحد پر پاکستانی چیک پوسٹوں کے قیام کے بعد اغواء اور دیگر جرائم میں ملوث افراد تاوان کی وصولی اور مغویوں کی حوالگی بھی افغانستان میں ہی کرنے لگے ہیںاس کی بڑی مثال کراچی سے اغوا ء ہونے والے 11سالہ بچے کی افغانستان کے سرحدی شہر بیش منڈی سے بازیابی ہے جسے ایک کروڑ روپے تاوان دے کر بازیاب کرایا گیاپولیس حکام کے مطابق ریکارڈ پر آنے والا کراچی کا یہ پہلا کیس ہے جس میں مغوی کو افغانستان میں تاوان دے کر بازیاب کرایا گیا ہے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تاجر خیر محمد اچکزئی کے 11سالہ بیٹے محمد سرور کو 13جنوری 2016ء کی شام سائٹ رشید آباد سے اغوا ء کیا گیا تھاحاجی خیر محمد کے مطابق بچہ گھریلو سامان لینے کیلئے دکان پر گیا تھا کہ واپس نہیں آیا اہل خانہ کی تلاش کے باوجود سرور نہیں ملا تو سائٹ تھانے بی ایریا تھانے میں درج کرایا ایف آئی آر نمبر 16حاجی خیر محمد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 365اے‘ 506بی‘ 34 25ٹیلیگراف ایکٹ کے تحت درج کی گئی نجی ٹی وی کے مطابق خیر محمدنے بتایا کہ اس دوران 20 جنوری کی سہ پہر 3بج کر 49منٹ پر افغانستان کے ایک فون نمبر سے کال کی گئی جس میں ملزمان نے بچے کے اغواء اور اپنے پاس موجودگی ظاہر کرتے ہوئے رہائی کیلئے 10کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا جس کے بعد انہیں ایک پاکستانی موبائل نمبر سے کال کی گئی جس میں بچے کو چھڑانے کیلئے فیصل آباد اور ملتان بھی بلوایا گیا اس کے بعد انہیں مردان آنے کا کہا گیاپھر ایک بار انہیں مسقط سے بھی فون کال کی گئی جس میں تاوان دینے کے لئے دبا ڈالا گیاخیر محمد کے مطابق وہ پولیس کو تمام صورت حال سے آگاہ کرتے رہے لیکن پولیس نے تعاون نہیں کیامدعی کے مطابق انہوں نے اپنے خاندانی ذرائع استعمال کئے اور ملزمان سے معاملات طے کرتے رہے آخر کار رواں سال 3مارچ کو وہ طے شدہ رقم کا بندوبست کرکے بلوچستان میں پاک افغان بارڈر چمن پہنچے اور اینٹی وائلنٹ کرائم سیل میں مقدمے کے تفتیشی افسر اور پولیس ٹیم کو بھی ساتھ لے گئے چمن میں لیویز حکام کو بھی صورتحال سے آگاہ کیاحاجی خیر محمد کے مطابق ملزمان کو ایک کروڑ روپے تاوان دینے کا معاملہ طے ہوا تھا اور ادائیگی اور بچے کی حوالگی بھی افغانستان کی حدود میں کرنا تھی‘ جس کیلئے وہ پاک افغان چمن بارڈر سے اکیلے ہی افغانستان میں داخل ہوئے انہوں نے ایک کروڑ پانچ لاکھ روپے کی رقم دو سیاہ شاپنگ بیگ میں ڈالی ہوئی تھی خیر محمد کے مطابق انہوں نے افغانستان کے سرحدی شہر بیش منڈی میں داخل ہوکر افغانی موبائل فون سم خریدی جس سے ملزمان کو فون کرکے اپنی آمد کا آگاہ کیا اور اپنی موجودگی کے مقام کے بارے میں بتایاخیر محمد کے مطابق تھوڑی دیر میں دو موٹر سائیکلوں پر سوار افراد آئے جو ان سے رقم کے دونوں تھیلے لے کر چلے گئے اس کے تھوڑی دیر بعد ایک اور موٹرسائیکل پر سوار شخص ان کے بچے کو 20قدم کے فاصلے پر ان کے سامنے چھوڑ کر چلا گیا دو سال کی دوری کے بعد وہ بچے کو لے کربارڈر کی طرف واپس آگئے جہاں اینٹی وائلنٹ کرائم سیل پولیس اور لیویز حکام ان کا انتظار کر رہے تھے خیر محمد کے مطابق وہ لیویز کے دفاتر پہنچے جہاں مجسٹریٹ کے سامنے بچے کو پیش کیا گیا اور پھر اس کی پولیس کو حوالگی ہوئی جس کے بعد بچے کو کراچی کی متعلقہ عدالت میں پیش کرکے ان کے حوالے کیا گیاانہوں نے کہا کہ اس مقدمے میں اب تک کئی ملزمان کو گرفتار ہو چکے ہیں جن کے مقدمہ زیر سماعت ہے اور ملزمان انہیں رہائی کیلئے ان پر دبا ڈال رہے ہیں۔