2018 میں گزشتہ چارماہ میں 48 لوگوں کے سر قلم کرنے پر سعودی عرب کو تنقید کا سامنا

جمعہ 27 اپریل 2018 14:52

ریاض (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعہ 27 اپریل 2018ء) انسانی حقوق کے مبصرین کا کہنا ہے کہ 2018 میں سعودی عرب نے گزشتہ چار ماہ میں 48 افراد کا سر قلم کیا  جن میں سے آدھے افراد کو صرف منشیات کی اسمگلنگ جیسے غیر متشدد جرائم پر سزائے موت دی گئی ۔ مزید تفصیلا ت کے مطابق امریکی گروپوں کا کہنا ہے کہ سعودی ریاست کو "بدنام زمانہ غیر منصفانہ مجرمانہ عدالتی نظام" کو تبدیل کرنا چاہیے ۔

سعودی عرب میں سزائے موت کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے ۔ یاد رہے کہ سعودی عرب میں دہشت گردی ، عصمت دری ، قتل ، مسلح وارداتوں اور منشیات اسمگلنگ کے جرائم میں سزائے موت کی سزا دی جاتی ہے ۔ انسانی حقوق کے ماہرین نے بار بار سعودی عرب میں مقدمات کی منصفانہ سنوائی نہ ہونے پر خدشات کا اظہار ظاہر کیا ہے جنکی سنوائی سخت اسلامی قوانین کے تحت ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

سعودی حکومت کا بین الاقوامی انسانی حقوق کے مبصرین کے جانب سے سامنے آنے والے خدشات کے جواب میں کہنا ہے کہ موت کی سزا مزید جرائم کے لئے ایک رکاوٹ کا کام کرتی ہے. مشرق وسطیٰ میں انسانی حقوق تنظیم کی ڈرائکٹر سارہ لیہ وٹسن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے گزشتہ چند ماہ میں کئی لوگوں کا سر قلم کیا ہے جن میں سے آدھے افراد سنگین جرم کے مرتکب بھی نہیں تھے اور یہ نہایت افسوس کی بات ہے ۔

اس لیے سعودی عرب کو منشیات اسمگلنگ کرنے والے مجرموں کی منصفانہ سنوائی کا قانون نافذ کرنا چاہیے اور اُنکو اپنی صفائی پیش کرنے کا ایک موقعہ ضرور ملنا چاہیے ۔انسانی حقوق تنظیم کی ترجمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں 2014 سے لے کر اب تک تقریباً 600 مجرموں کا سر قلم کیا گیا ہے جن میں سے ایک تہائی مجرم منشیات اسمگلنگ کے تھے ۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے ٹائمز میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب قتل کے علاوہ باقی تمام جرائم میں ملوث مجرموں کے لیے موت کی سزا کے قانون میں رعایت کرنے کی کوشش کرئے گا۔

شہزادہ سلمان آج کل دنیا کے سامنے ریاست کا سافٹ امیج لانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ ریاست کی معشیت کا انحصار تیل پر کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو سعودی عرب کی جانب متوجہ کر رہے ہیں۔