ملائیشیا میں انتخابی مہم آغاز سے قبل ہی تنازعات کا شکار

نجیب رزاق کو ریاستی فنڈز میں اربوں ڈالر کی خورد برد کے الزام، مہنگائی پر عوام کے غصے کے ساتھ ساتھ ملائیشیا کے عظیم رہنما 92 سالہ مہاتیر محمد کا چیلنج درپیش

اتوار 29 اپریل 2018 20:10

کوالالمپور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ اتوار 29 اپریل 2018ء)ملائیشیا میں انتخابی مہم آغاز سے قبل ہی تنازعات کا شکار ہوگئی ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق سبوتاژ اور تعصب کے الزامات نے ملائیشیا میں 9 مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے شروع ہونے والی مہم کو نقصان پہنچا دیا جس میں ملائیشیا کے موجودہ وزیراعظم نجیب رزاق اور سابق وزیراعظم مہاتیر محمد ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہیں۔

نجیب رزاق ناقابلِ شکست اتحادی حکمراں جماعت کی قیادت کر رہے ہیں، تاہم امکان ظاہر کی جارہی ہے کہ یہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے اب تک کے ملائیشیا کے مشکل ترین انتخابات ہو سکتے ہیں۔نجیب رزاق کو ریاستی فنڈز میں اربوں ڈالر کی خورد برد کے الزام، مہنگائی پر عوام کے غصے کے ساتھ ساتھ ملائیشیا کے عظیم رہنما 92 سالہ مہاتیر محمد کا چیلنج درپیش ہے۔

(جاری ہے)

خیال رہے کہ 22 سال تک ملائیشیا کے وزیراعظم رہنے والے مہاتیر محمد نے 2003 میں سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی، تاہم انہوں نے موجودہ وزیراعظم نجیب رزاق کے خلاف ریاستی فنڈ میں اربوں ڈالر کی خردبرد کے الزام کے بعد دوبارہ سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔نجیب رزاق اپنی آبائی ریاست پاہانگ سے الیکشن میں حصہ لیں گے جبکہ ان کی جماعت بریسن نیشنل (بی این) کا اتحاد اور اپوزیشن جماعتیں 222 پارلیمنٹری اور 505 ریاستی نشستوں کے لیے ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہوں گی۔

ملائیشیا کے دارالحکومت کولا لمپور میں میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ ان کے اس نجی طیارے کو تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا تھا جو انہیں اپنے کاغزات نامزدگی جمع کروانے کے لیے کولا لمپور سے ان کے آبائی علاقے لنگکاوی لے کر جانے والا تھا، تاہم پائلیٹ کو اس نقصان کے بارے میں اڑان بھرنے سے پہلے ہی معلومات حاصل ہوگئی تھیںاپوزیشن جماعتوں اور ناقدین کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ انہیں بھی ایسے الیکشن نظام کا سامنا ہے جو بی این کی اتحادی حکومت کی حمایت کر رہا ہے۔

ادھر انتخابات کے عمل میں تضاد کے حوالے سے بھی خبریں سامنے آرہی ہیں، تاہم پاکستان، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، مالدیپ، مشرقی تیمور، کمبوڈیا، کرغیزستان، ازبکستان اور آذربائیجان سے تعلق رکھنے والے نگراں ادارے آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات کی نگرانی بھی کریں گے۔