ْپاکستان کی سیاست میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار رہا ہے، چوہدری نثار

نواز شریف کے خلائی مخلوق اور عمران خان کے فوج کے کردار سے متعلق بیانات افسوسناک ہیں،ساری زندگی نوازشریف کا سیاسی بوجھ اٹھایا لیکن جوتیاں اٹھانے والا نہیں ہوں،بڑے بڑے امتحان آئے کبھی پارٹی کو نہیں چھوڑا،نواز شریف اور ان کی بیٹی مجھ پر طعنہ زنی میں مصروف رہے، نواز شریف کے ذاتی ملازم بھی میرے خلاف باتیں کر رہے ہیں، پیغامات لیکس اور کان میں کھسر پھسر کے ذریعے حملے ہضم نہیں کر سکتا،34سالہ پارٹی وفاداری کے بعد آج وضاحتیں دے رہا ہوں ،ا س سے لگتا ہے کہ ساری زندگی ضائع کی،نواز شریف اگر خوشامدی ٹولے سے نکلیں اور ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کریں،میں نہیں پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہو گی،نواز شریف کی طرف سے یہ کہنا کہ وہ پہلے نظریاتی نہیں تھے اب نظریاتی ہو گئے یہ سن کر پشیمانی ہوئی،اگر نواز شریف اب نظریاتی ہو گئے ہیں تو کہیں محمود اچکزئی کا نظریہ تو نہیں اپنا لیا،میں نے پارٹی چھوڑی نہ پارٹی چھوڑنے کا ارادہ ہے نہ کوئی اور عزائم ہیں،کوئی مطالبات ہیں نہ عہدے کی ڈیمانڈ ،ر دینے کے باوجود کوئی عہدہ نہیں لیا،گروپ بنانے والے اور لوگ ہوں گے، میں ایسا نہیں، کسی آزاد گروپ کا حصہ نہیں ہوں،چاہتا تو آرام سے 40، 45 ارکان اسمبلی کا گروپ بنا سکتا تھا،دھڑے بندی کیلئے میرے پاس بے شمار ارکان اسمبلی آئے لیکن سب کو پارٹی میں رہنے کا مشورہ دیا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما و سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا پریس کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 5 مئی 2018 21:26

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ ہفتہ 5 مئی 2018ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما و سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار رہا ہے، نواز شریف کے خلائی مخلوق اور عمران خان کے گزشتہ انتخابات میں فوج کے کردار سے متعلق بیانات افسوسناک ہیں،ساری زندگی نوازشریف کا سیاسی بوجھ اٹھایا لیکن جوتیاں اٹھانے والا نہیں ہوں،بڑے بڑے امتحان آئے کبھی پارٹی کو نہیں چھوڑا،نواز شریف اور ان کی بیٹی مجھ پر طعنہ زنی میں مصروف رہے، نواز شریف کے ذاتی ملازم بھی میرے خلاف باتیں کر رہے ہیں، پیغامات لیکس اور کان میں کھسر پھسر کے ذریعے مجھ پرجو حملے ہو رہے ہیں ہضم نہیں کر سکتا،34سالہ پارٹی وفاداری کے بعد آج وضاحتیں دے رہا ہوں ا س سے لگتا ہے کہ ساری زندگی ضائع کی،نواز شریف اگر خوشامدی ٹولے سے نکلیں اور ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کریں تو صرف میں نہیں پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہو گی،نواز شریف کی طرف سے یہ کہنا کہ وہ پہلے نظریاتی نہیں تھے اب نظریاتی ہو گئے ہیں یہ سن کر پشیمانی ہوئی،اگر نواز شریف اب نظریاتی ہو گئے ہیں تو کہیں محمود اچکزئی کا نظریہ تو نہیں اپنا لیا،میں نے پارٹی چھوڑی نہ پارٹی چھوڑنے کا ارادہ ہے نہ کوئی اور عزائم ہیں،کوئی مطالبات ہیں نہ عہدے کی ڈیمانڈ ،ر دینے کے باوجود کوئی عہدہ نہیں لیا،گروپ بنانے والے اور لوگ ہوں گے، میں ایسا نہیں، کسی آزاد گروپ کا حصہ نہیں ہوں،چاہتا تو آرام سے 40، 45 ارکان اسمبلی کا گروپ بنا سکتا تھا،دھڑے بندی کیلئے میرے پاس بے شمار ارکان اسمبلی آئے لیکن سب کو پارٹی میں رہنے کا مشورہ دیا۔

(جاری ہے)

وہ ہفتہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ پچھلے 34سال میں کوئی ایک مثال بھی ایسی لے آئیں،میں کسی آزاد گروپ کا حصہ نہیں ہوں اور نہ ہی میری وجہ سے پارٹی کو کبھی شرمندگی ہوئی ہے، میں کسی سے احکامات لے کر آگے پیچھے نہیں ہوتا،مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ پوچھیں گے کہ میں مسلم لیگ (ن) میں رہوں گا یا نہیں، آپ صحافی میرے دوست ہیں مگر آپ ظالم لوگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان اور میاں نواز شریف دونوں میرے سوال پر چپ ہو جاتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے، میں سیاسی فیصلے خود کرتا ہوں، بڑے بڑے امتحان آئے میں نے پارٹی کو نہیں چھوڑا، میں سوشل میڈیا پر نہیں ہوں، میں گر کسی سوال پر بات نہ کروں تو سمجھیں جواب نہیں دینا چاہتا، میں آپ کے توسط سے مسلم لیگ (ن) کے اکابرین اور عوام تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتا ہوں،میں پارٹی سے ناراض نہیں ہوں اور نہ ہی میرے کوئی مطالبات ہیں، آزاد میڈیا کے دور میں جس کے ذہن میں جو آتا ہے وہ چلا دیتا ہے، میں نے پارٹی سے کبھی کوئی عہدہ نہیں مانگا، پارٹی کی جانب سے کہنے کے باوجود میں نے پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں لیا، میں مسلم لیگ (ن) کے قائم ہونے سے قبل تین مرتبہ وزیر بن چکا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں پچھلے 34 سال سے میاں نواز شریف کے ساتھ ہوں، 1992-93میں مسلم لیگ کی تشکیل کے وقت میں پارٹی کے قیام میں شامل تھا، نواز شریف پارٹی کے لیڈر ہیں، اس کے قیام میں 20-22ممبران اور بھی تھے، آج میرے علاوہ فائونڈر ممبر کوئی اور نہیں ہے، رانا تنویر نے 1985میں پارٹی جوائن کی، مگر وہ پارٹی کی ہیرارکی میں نہیں تھے۔چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ 70فیصد پارٹی ممبران نے پچھلے 20-25برس میں پارٹی کو چھوڑا اور دوبارہ جوائن کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب پانامہ لیکس شروع ہوا تو میرا نقطہ نظریہ تھا کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ نہیں جانا چاہیے،سپریم کورٹ کا فیصلہ خود عدالت ہی غیر موثر کر سکتی تھی،میں نواز شریف کی تقریر کے بھی خلاف تھا، جے آئی ٹی کے بننے کے وقت میں نے نواز شریف سے کہا کہ آپ آرمی چیف کو بلائیں اور ان سے کہیں کہ فوج کے بریگیڈیئرز جے آئی ٹی میں شامل نہیں ہونے چاہئیں، بنیادی نقطہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی نے اگر ہمارے خلاف فیصلہ دیا تو ہم اسے متنازع بنائیں گے اور اگر ہمارے حق میں آیا تو اپوزیشن اسے متنازع بنائے گی، اس سے فوج متنازع بنے گی،، نواز شریف نے مجھ سے اس معاملے پر دو مرتبہ وعدہ کیا مگر وہ میٹنگ نہ ہو سکیں،میں نے مشورہ نواز شریف کیلئے دیا، اپنے لئے نہیں دیا، پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد میں نے نواز شریف سے کہا کہ آپ وہ تمام اقدامات کریں جس سے پارٹی کو استحکام ملے، میری دوسری لمبی میٹنگ نواز شریف سے پنجاب ہائوس میں ہوئی، میں نے ان سے کہا کہ الیکشن پر پورا زور لگائیں اور آپ پر کیسز کے معاملے پر 6,8مہینے کی جو قدغن لگی ہوئی ہے وہ الیکشن سے ایک سال آگے چلی جائے، نواز شریف نے مجھے کہا کہ یہ کس طرح ممکن ہے، اس پر میں نے ان سے کہا کہ آپ کا جو لب و لہجہ عدلیہ اور فوج کے خلاف ہے اسے نیچے لے آئیں، نواز شریف نے جواب دیا کہ میں پھر کیا کہوں،اس پر میں نے نواز شریف سے کہا کہ آپ کہیں کہ مجھ سے زیادتی اور نا انصافی ہوئی، میں ملک کو سیدھے راستے پر لے کر جاتا ہوں، ہر دفعہ مجھے راستے میں روک دیا جاتا ہے، میں سیاسی میدان، عدالتی میدان اور پاکستان کے گلی کوچوں میں مقابلہ کروں گا مگر یہ نہ کہیں کہ کوئی پیچھے سے ڈوریاں ہلا رہا ہے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ میاں صاحب آپ کی باتوں سے پیچھے پیغام جائے گا، میں نے فوج سے کوئی تمغہ نہیں لینا، سیاست کوئی دنگل نہیں ہے، سیاست کوئی باکسنگ میچ اور کوئی جنگ نہیں بلکہ اپنے صولوں کو نظر انداز کئے بغیر راستہ نکالنا ہے، ہم خود سپریم کورٹ گئے،ہمیں کس نے کہا تھا جے آئی ٹی میں جائیں ، ہم خود گئے،جے آئی ٹی کو قبول کیا،میاں صاحب نے خود تقریر کی،جب ہم سپریم کورٹ میں جاتے ہیں اور خط بھی لکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے وہ قبول ہے تواگر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے خلاف آتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ ناانصافی پر مبنی ہے تو ذمہ دار ہم خود ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ ہی تبدیل کر سکتی ہے، ہمیں واپسی کے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں، اگر ایک عدالت فیصلہ دے تو دوسری عدالت میں جایا جا سکتا ہے،حدیبیہ پیپر مل کا فیصلہ آپ کے سامنے ہے،حدیبیہ کیس کا فیصلہ نواز شریف اور خاندان کے حق میں آیا تھا،میری تمام رائے غلط ہو سکتی ہے مگر اسے بدنیتی نہیں کہا جا سکتا، اس میں میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے، میں اگر ناراض ہوتا تو نااہلی کے وقت جو 40,50ایم این ایز نالاں تھے، میں اگر خاموشی سے کچھ کرتا تو میرے پاس 40,45ایم این ایز کا گروپ موجود تھا، مگر میں نے کبھی ایسی گیم نہیں کھیلی، میں سازشی آدمی نہیں ہوں، میں اپنے پاس آنے والے اراکین اور وزراء کو یہ کہتا ہوں کہ پارٹی میں رہنا ہے،پارٹی چھوڑنے والے لوگ میرے پاس آئے تھے، میں ان کو روک نہ سکا مگر میرا مشورہ سب کو یہ تھا کہ پارٹی میں رہو، میں ہر قانون سازی میں موجود تھا۔

چوہدری نثار نے کہا کہ اسمبلی میں میں نے نواز شریف کے حق میں ووٹ دیا، سینیٹ انتخابات میں مجھے شدید تحفظات تھے مگر میں نے پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیا، جنرل(ر) پرویز مشرف کے چار ساتھیوں کو ہم نے سینیٹ کا ٹکٹ دیا،یہ سب اچھے لوگ تھے،(ق) لیگ اور مشرف کو الزام دینا بند کر دیں،(ق) لیگ یا مشرف کے چار ساتھیوں کو آپ نے دن کے اجالے میں سینیٹ میں ووٹ دیا،چار اشخاص جو میاں نواز شریف کے پرسنل ملازم ہیں یا سٹاف آفیسر ہیں ،جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کو ٹکٹ دیا گیاہے،میں پارٹی کے ساتھ مشکل حالات میں کھڑا رہا،موقف میں اختلاف پر میں نے وزارت چھوڑ دی، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف خود میرے پاس آئے، شاہد خاقان عباسی نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ نہیں ہوں گے تو حلف برداری نہیں ہو گی۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ لوگ وزارتوں کیلئے سب کچھ کرتے ہیں مگر میں نے ایسا نہیں کیا، میں نے موقف کی خاطر وزارت چھوڑ دی تا کہ ان کو پریشانی یا پشیمانی نہ ہو، یہ جو کرتے رہیں، ہم نے کب ان کو چھوڑا ہے، جن پر مشکل وقت ہوتا ہے ان کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ کیا آج معیار یہ ہے کہ آپ نے ان کو ساتھ لے کر چلنا ہے جو خوشامدی ہیں یا ان کو ساتھ لے کر چلنا ہے جو پرانے ساتھ ہیں، میں تو ایک طرف ہو کر بیٹھ چکا تھا، میں نے ساری زندگی میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کا بوجھ اٹھایا ہے، میں نے ساری زندگی کسی کی جوتیاں اٹھائی ہیں نہ اٹھائوں گا،یہ میرا مشورہ نہیں چاہتے تھے اور انہوں نے تصادم کا راستہ اپنایا، یہ عدلیہ پر تنقید کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے ایک میٹنگ میں میرا ایک گھنٹہ انتظار کیا تا کہ میری بھی تصویر ان کے ساتھ ٹی وی پر آئے، مگر میں پیچھے نہیں ہٹا۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی لیڈران کا شکریہ کہ انہوں نے مجھے پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی مگر میں اس وقت پارٹی میں کھڑا ہوں، لیکن اس پارٹی میں نہیں جس میں اظہار خیال پر قدغن لگ گئی ہو، پارٹی میں اختلاف رائے جرم ہے، ماضی میں پارٹی کے خلاف گالم گلوچ کرنے والے آج اچھے ہیں جبکہ میں اپنی وفاداری کے باوجود برا ہوں، پی پی پی میں چوہدری اعتزاز احسن ،رضا ربانی اور پی ٹی آئی میں حامد خان نے اعتراض کیا، میرے پارٹی سے اختلاف پر میاں نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے طعنہ زنی کی، کبھی شعر پڑھ کر اور کبھی ریمارکس کے ذریعے، جس پر میں نے رد عمل دیا،جس پر یہ معاملہ رک گیا، بعد میں ان کے ایک ذاتی ملازم جس نے کبھی الیکشن نہیں لڑا، اس نے پیپلز پارٹی دور میں ملازمت کی، ان کا نام نصراللہ خٹک ہے، انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے وقت پی پی پی کو چھوڑ دیا، نواز شریف کے مشکل وقت میں انہوں نے لندن میں سیاسی پناہ لے لی، یہ آج نواز شریف کی گاڑیوں میں بھی بیٹھے ہوتے ہیں اور جاتی امراء میں بھی پائے جاتے ہیں، انہو نے نئے محاذ کھول لئے اور تضحیک آمیز باتیں کیں کہ چوہدری نثار پارٹی چھوڑتا کیوں نہیں اور اس کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا، چوہدری نثار اپنے دوست عمران خان سے جا کر کیوں نہیں مل جاتا، چوہدری نثار نے مجھے ڈان لیکس میں پھنسوایا، سوشل میڈیا پر ان کی جانب سے روزانہ ایک نئی کہانی گڑھی گئی۔

چوہدری نثار نے کہا کہ میں میاں نواز شریف اور ان کے پیادے یہ بات جان لیں کہ میں نے 34سال پارٹی سے غیر مشروط وفاداری نبھائی، میرا فوجی خاندان سے تعلق ہے، مگر جب بھی سول ملٹری مسئلہ آیا میں نے نواز شریف کا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ جو شخص ساری زندگی آپ کے ساتھ رہا اسی لئے نا پسندیدہ ہو گیا ہے کہ وہ اختلاف رائے کرتا ہے،سچ بولنا اور سچ سننا بہت اہم ہوتا ہے، خوشامدی کے جھرمٹ سے نکل کر نواز شریف ملک ، قوم اور پارٹی مفاد میں فیصلے کریں تو ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ جس انداز میں پیغامات، لیکس اور کان میں کھسرپھسر کے ذریعے مجھ پر حملے ہو رہے ہیں یہ ہضم نہیں کر سکتا، میں نے نواز شریف کو خط لکھا تھا کہ پارٹی مجلس عاملہ کا اجلاس بلائیں جس میں پارٹی امور اور ڈان لیکس سمیت تمام معاملات پر مشاورت ہو لیکن اس پر کوئی جواب نہیں آیا، میں نے اگر نواز شریف کا ساتھ دیا اور دوسری طرف سے آج میں وضاحتیں دے رہا ہوں اس سے لگتا ہے کہ میں نے زندگی کے 34سال ضائع کر دیئے ہیں۔

انہوںنے کہا کہ حالات کو سدھارنے کی سب سے بڑی ذمہ داری نواز شریف پر عائد ہوتی ہے، وہ پاکستان کے سب سے بڑا سیاستدان ہیں، نواز شریف خوشامدی ٹولے سے نکلیں اور ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کریں تو پھر صرف میں نہیں بلکہ پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ خلائی مخلوق سے متعلق جو بیانات دیئے جا رہے ہیں وہ افسوسناک ہیں، عمران خان نے بھی گزشتہ الیکشن میں فوج سے متعلق جو بیان دیا ہے اس پر افسوس ہوا کیونکہ فوج کچھ نہیں کرتی فیصلے ملٹری لیڈر شپ کرتی ہے اور پاکستان کی سیاست میں ملٹری لیڈر شپ کا بلواسطہ یا بلاواسطہ کردار رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سیاست یا الیکشن میں فوج کے کردار کے حوالے سے جو باتیں ہورہی ہیں اس پر نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بلائیں اور اس مسئلے کو حل کریں کیونکہ اس سے دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ نواز شریف نے کہا کہ میں پہلے نظریاتی نہیں تھا اب نظریاتی ہو گیا ہوں،مجھے یہ سن کر بڑی پشیمانی ہوئی کہ نواز شریف پہلے نظریاتی نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں کچھ دائیں بازو کی جماعتیں ہیں اور کچھ بائیں بازو کی، میں اور میری جماعت مسلم لیگ (ن) دائیں بازو کی جماعت ہیں، اگر اب نواز شریف نظریاتی ہو گئے ہیں تو کہیں محمود اچکزئی کا نظریہ تو نہیں اپنالیا، محمود اچکزئی اور (ن) لیگ کے نظریے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف سے میری کثرت سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں جب بھی لاہور جاتا ہوں شہباز شریف سے ملتا رہتا ہوں، ضروری نہیں کہ جب بھی ملاقا ت ہو پارٹی امور پر بات چیت ہو، شہبازشریف سے میرا ذاتی تعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف سے کبھی ملاقات کا اظہار نہیں کیا اور اس حوالے سے جتنی بھی خبریں ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں، اگر مجھے پارٹی اجلاس میں بلائیں گے تو میں جائوں گا اور ضروری نہیں کہ میں ہر پارٹی اجلاس میں شرکت کروں۔