سرکاری وکیل مقررہ تنخواہوں کی وصولی کے بعد کس طرح سرکاری محکموں سے فیس لے سکتے ہیں،قانون میں کوئی ابہام موجود نہیں، ذمہ دار وں کو نہیں چھوڑ یں گے، لاء افسروں کے بینک اکاو نٹ کو بھی دیکھیں گے، چیف جسٹس، متعلقہ حکام سے دو ہفتوں میں جواب طلب

بدھ 9 مئی 2018 00:10

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل 8 مئی 2018ء) سپریم کورٹ نے وزارت قانون اور اٹارنی جنرل کے دفتر کے ساتھ منسلک سرکاری وکلاء کی جانب سے سرکاری محکموں سے کیسوں کی فیس لینے پر متعلقہ حکام سے دو ہفتوں میں جواب طلب کر تے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی ہے ۔ منگل کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی،اس موقع پرچیف جسٹس ثاقب نثار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری وکیل مقررہ تنخواہوں کی وصولی کے بعد کس طرح سرکاری محکموں سے فیس لے سکتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرلز سرکاری محکموں سے فیسیں لے رہے ہیں، 14 اورسرکاری وکلاء نے فیس کی مد میں کروڑوں روپے وصول کیے ہیں، اگر مان لیا جائے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نجی پریکٹس کر سکتے ہیں لیکن تب بھی وہ سرکاری اداروں سے فیس نہیں لے سکتے، سوئی گیس، ایف بی آر کے سرکاری اداروں سے ایڈیشنل اٹارنی جنرلز نے فیس وصول کی ہے ۔

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت مجھے اپنا گھر ٹھیک کرنے کا موقع دے میں اس حوالے سے تحقیقات کرکے عدالت کوآگاہ کروں گا ، چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ محکمہ سوئی گیس سے پچاس لاکھ روپے فیس لی گئی، جبکہ اٹارنی جنرل آفس کے 14 لوگ سرکاری اداروں سے فیسیں لے رہے ہیں، آخر وہ کس اتھارٹی کے تحت یہ فیس لے رہے ہیں، وزارت قانون اس معاملہ پر عدالت میں جواب داخل جبکہ اٹارنی جنرل اوردیگر سرکاری لاافسر ان بھی تحریری جواب عدالت میں جمع کرائیں، سماعت کے دورا ن اٹارنی جنرل کا عدالت کے روبرو کہنا تھا کہ اس حوالے سے قانون میں ابہام موجود ہے، جس پرچیف جسٹس نے کہاکہ قانون میں کوئی ابہام موجود نہیں، ہم ذمہ دار وں کو نہیں چھوڑ یں گے اور لاء افسروں کے بینک اکاو نٹ کو بھی دیکھیں گے، سرکاری اداروں سے بھی پوچھیں گے کہ کس کس نے سرکاری وکلاء کوفیس ادا کی ہے، اٹارنی جنرل نے عدالت کوبتایاکہ اس معاملے پر تمام سرکاری اداروں کو خط لکھدیا گیا ہے، اوران سے فیس ادا کرنے کے بارے میں رپورٹ مانگ لی ہے، بعد ازاںعدالت نے دو ہفتوں میں جواب طلب کر تے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی۔