ایران جوہری ڈیل کے تحفظ کے لئے برطانیہ،فرانس اور جرمنی سرگرم کردار ادا کرنے کو تیار

برطانیہ فرانس کاجوہری معاہدہ پرکاربند رہنے کا اعادہ،امریکی علیحدگی کے باوجود ایرانی مفادات کا تحفظ کیا جائے گا،جوہری معاہدے پر ایران اور روس مابین تعاون مثالی ہے،چین بھی ایران کے ساتھ کھڑا ہے،ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف

منگل 15 مئی 2018 23:39

لندن،ماسکو،تہران(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل 15 مئی 2018ء)ایران جوہری ڈیل بچانے کے لئیبرطانیہ،فرانس اور جرمنی سرگرم ہوگئے،برطانیہ فرانسنے جوہری معاہدہ پرکاربند رہنے کا اعادہ کیا،ایرانی وزیر خارجہ یقین دہانی کے حصول کے لئے ماسکو پہنچ گئے،امریکی علیحدگی کے باوجود ایرانی مفادات کا تحفظ کیا جائے گا،جوہری معاہدے پر ایران اور روس مابین تعاون مثالی ہے،چین بھی ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایران جوہری ڈیل بچانے کے لیے برطانیہ،فرانس اور جرمنی سرگرم ہوگئے اور لندن دورے پر آئے فرانسیسی وزیرخارجہ نے برطانوی ہم منصب سے ملاقات کے دوران جوہری معاہدہ پرکاربند رہنے کا اعادہ کیا۔ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف جوہری پروگرام پرعالمی معاہدے کی حمایت اور یقین دہانیاں حاصل کرنے کے لیے ماسکو پہنچ گئے۔

(جاری ہے)

روس 2015 میں طے پانے والے اس معاہدے سے امریکا کی علیحدگی کے بعد اس کو برقرار رکھنے کی کوششوںکی قیادت کررہا ہے جس میں اسے یورپی یونین کا تعاون بھی حاصل ہے۔

ماسکو پہنچنے کے بعد ایک بیان میں ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ ان کے دورہ ماسکو کا مقصد متعلقہ ممالک سے یہ یقین دہانی حاصل کرنا ہے کہ امریکا کی اس معاہدے سے علیحدگی کے بعد بھی ایران کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں جوہری معاہدے کے حوالے سے روس کے کردار اور ایران کے ساتھ تعاون کو مثالی قرار دیا۔

روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی معاہدے کے تحفظ روس اور یورپی یونین کی ذمے داری ہے۔ قبل ازیں ایرانی وزیر خارجہ بیجنگ میں اپنے چینی ہم منصب سے بھی ایسی ہی ملاقات میں جوہری معاہدے پر چین کی حمایت حاصل کر چکے ہیں۔جواد ظریف ماسکو کے بعد برسلز کا دورہ کریں گے، غیر ملکی دوروں کا مقصد ڈیل کے مستقبل کے لیے ایک واضح حکمت عملی تیار کرنا ہے۔

جبکہ روس کے بعد وہ برسلز جائیں گے۔ اتوار کو اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ اس ڈیل کے مستقبل کے لیے ایک واضح حکمت عملی تیار کی جا سکتی ہے جبکہ امریکی موقف ہے کہ تہران حکومت کے ساتھ ایک ایسی ڈیل ہونا چاہیے، جونہ صرف اس کی جوہری سرگرمیوں کو روکے بلکہ اس کے میزائل پروگرام پر بھی قدغن عائد کرے۔