سبیکا روز بتاتی تھی آج اتنے دن رہ گئے اور پھر میں واپس آ جائوں گی، اس کے گھر آنے میں 20دن رہ گئے تھے ، پہلے وہ روزانہ خود فون کرتی تھی ، جب فون نہ آیا تو والد نے اس کی ساتھیوں کوفون ملایا ، سکول انتظامیہ نے بھی کہاکہ کچھ نہیں بتایا جاسکتا،امریکی حکومت ان بڑھتے ہوئے ان حادثات کاکو سنجیدگی سے نوٹس لے

ٹیکساس سکول فائرنگ میں شہید ہونے والی پاکستانی طالبہ سبیکا کے والد اور والدہ کا انٹرویو

ہفتہ 19 مئی 2018 21:54

لندن /کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ ہفتہ 19 مئی 2018ء) کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال کے رہائشی فرح اور عبدالعزیز کی بیٹی سبیکا شیخ ایک سال قبل ٹیکساس کے سینٹا فے ہائی سکول میں سکالرشپ پر پڑھنے گئی تھیں۔سبیکا شیخ کے والد عبدالعزیز نے کہاکہ میں نے یہ خبر امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں واقع ایک ہائی سکول میں فائرنگ کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی خبر نیوز چینل سی این این پر سنی تھی۔

افطار سے فارغ ہو کر میں نے 8 بجے ٹی وی چینل کھولا تھا جب میرا دھیان ایک خبر پر گیا۔ اس پوری خبر میں دو لفظ میرے سامنے ابھر کر آ رہے تھے۔ ٹیکساس اور سکول۔ مجھے یکدم اپنی بیٹی کا خیال آیا اور میں نے اسے فون کیا۔ہفتے کے روز برطانوی نشریاتی ادارے سے اپنے گھر میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے سبیکا کو فون ملایا ہو اور اس نے فون نہیں اٹھایا ہو یا اس کا فورا میسج نہ آجائے کہ بابا میں آپ کو بعد میں فون کرتی ہوں، لیکن اس دن ایسا نہیں ہوا۔

(جاری ہے)

سبیکا کے والد نے پھر ان کی دوستوں کو فون ملایا لیکن وہاں سے بھی جواب موصول نہیں ہوا۔سکول کی انتظامیہ اور پروگرام کوآرڈینیٹر کو فون کرنے پر معلوم ہوا کہ سکول کو چاروں طرف سے پولیس نے بند کر دیا ہے اور اس وقت ان کو کچھ بھی وثوق سے نہیں بتایا جا سکتا کہ کیا ہوا ہے۔اس وقت تک یہاں پر ساڑھے نو دس بج چکے تھے جب مجھے سکول سے فون آیا۔ فون پر وہ لوگ روپڑے۔

مجھے پتا چل گیا کہ میری بیٹی نہیں ہے اب فرح اور عبدالعزیز کی بیٹی سبیکا شیخ ایک سال قبل ٹیکساس کے سینٹا فے ہائی سکول میں سکالرشپ پر پڑھنے گئی تھیں۔ جمعے کی صبح وہاں پر ایک 17 سالہ لڑکے کے فائرنگ کرنے سے اب تک 10 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جن میں سبیکا بھی شامل ہیں۔ہفتے کے روز پاکستانی میڈیا سبیکا کے گھر کے باہر موجود تھا۔ ان کے چچا سے لے کر خاندان کے باقی افراد میڈیا کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔

تعزیت کے لیے سبیکا کے گھر آنے والوں میں پاکستان تحریکِ انصاف کے عارف علوی بھی شامل تھے جو سبیکا کے چچا جلیل شیخ کو پاک سرزین کے علاقائی کوآرڈینیٹر کے طور پر جانتے ہیں۔عبدالعزیز نے بتایا کہ پاکستانی کونصلیٹ کی عائشہ صاحبہ ان سے مسلسل رابطے میں ہیں اور اب تک ان کے رشتہ دار بھی ہیوسٹن پہنچ رہے ہیں۔ پہلے ہمیں یہی لگ رہا تھا کہ ہمارا وہاں کوئی نہیں ہے لیکن بہت سے لوگ مدد کرنے کے لیے وہاں پہنچ گئے ہیں۔

ہمیں بتایا گیا ہے کہ میری بیٹی کی لاش پیر یا منگل تک پاکستان پہنچا دی جائے گی۔میڈیا اور باقی لوگوں سے دور سبیکا کی والدہ فرح شیخ نے اپنی بیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی پبلک سکول کی طالبہ ہوتے ہوئے اس کو بہت لوگ باہر پڑھنے کا کہتے تھے۔میری بیٹی بالکل آخری مراحل میں جا کر اس سکالرشپ کے لیے منتخب ہوئی تھی کیونکہ فارم جمع کرنے کی تاریخ میں ایک دن کی توسیع ہوئی تھی۔

میں اپنی بیٹی کو ایک کامیاب اور نیک دل انسان کے طور پر یاد رکھنا چاہتی ہوں۔ہیوسٹن کے سینٹا فے میں جمعے کی صبح ہونے والا واقعہ امریکہ کے سکولوں میں فائرنگ کا پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی اسی سال میں مختلف سکولوں میں فائرنگ کی تعداد میں اب تک 22 سکول شامل ہیں۔18 سالہ سبیکا شیخ کا تعلق کراچی کے گلشنِ اقبال کے علاقے سے تھا ان کی والدہ فرح نے بتایا کہ ان کے پاکستان آنے میں صرف 20 دن رہ گئے تھے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سبیکا کے والد نے کہا کہ وہاں کی حکومت کو سنجیدگی سے ان بڑھتے ہوئے حادثات کا نوٹس لینا چاہیے۔ اس طرح سے تو ماں باپ بچوں کو سکول بھیجنے سے بھی گھبرائیں گے۔18 سالہ سبیکا شیخ کا تعلق کراچی کے گلشنِ اقبال کے علاقے سے تھا ان کی والدہ فرح نے بتایا کہ ان کے پاکستان آنے میں صرف 20 دن رہ گئے تھے۔ مجھے روز بتاتی تھی کہ مما آج 45 دن رہ گئے ہیں، پھر 35 دن رہ گئے ہیں ابھی پرسوں ہی اس نے مجھے فون پر بتایا کہ مما اب صرف 19 دن رہ گئے ہیں اور پھر میں واپس آجاں گی اپنی مرضی کے کھانے بتاتی رہتی تھی کہ مما میرے لیے افطاری میں یہ کھانا بنائیے گا۔ یہ واقع تو ہم سب کے لیے ایک سانحہ بن کر رہ گیا ہے، میری بیٹی اب واپس نہیں آئے گی ۔