سعودی عرب میں ہراسگی کے انسداد کے لیے قانون کی تشکیل آخری مراحل میں

سعودی شُوریٰ انسدادِ ہراسگی بِل پر سوموار کے روز بحث کرے گی

ہفتہ 26 مئی 2018 21:58

منامہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ ہفتہ 26 مئی 2018ء)خواتین اور کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی ہراسگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے سعودی عرب میں قانون سازی کی جا رہی ہے۔ اس مقصد کی خاطروزارتِ داخلہ کی جانب سے انسدادِ ہراسگی بل تیار کیا گیا ہے جو منظوری کے بعد قانون کا درجہ اختیار کر لے گا۔ اس مجوزہ بل میں خواتین اور بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے افراد کے لیے پندرہ سال قید تک کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ تیس لاکھ سعودی ریال کی سزا بھی زیرغور ہے۔ بِل کی منظوری دینے کے حوالے سے سعودی شُوریٰ کونسل سوموار کے روز بحث کا آغاز کرے گی۔ اس سلسلے میں شوریٰ کی سماجی‘ عائلی اور یوتھ کمیٹی کی جانب سے اس بل کی حمایت میں تیار کی گئی رپورٹ شوریٰ کے 150 ممبران کے سامنے پیش کی جائے گی جن میں تیس خواتین بھی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

اگر شُوریٰ نے بحث کے بعد بِل کی منظوری دے دی تو اسے واپس سعودی فرماں روا شاہ سلمان کے پاس بھیجا جائے گا جن کی حتمی منظوری کے بعد اسے قانون کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔

واضح رہے کہ مملکت میں ہراسگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے انسدادِ ہراسگی قانون کی تشکیل کے حوالے سے وزارتِ داخلہ کو خصوصی ہدایات جاری کیں جس نے بل کا مسودہ تیار کرنے کے بعد فرماں روا کی خدمت میں پیش کیا۔ شاہ سلمان نے مجوزہ بِل کی افادیت جانچنے کے لیے اسے کابینہ کے حوالے کر دیا۔

کابینہ کے ممبران نے بِل پر نظر ثانی کے بعد اس کے حق میں رائے دی۔ بِل کو قانون میں ڈھالنے کے لیے اختتامی مراحل میں اسے شُوریٰ کی منظوری درکار ہے۔ مجوزہ بل آٹھ شِقوں پر مشتمل ہے اور اس میں ہراسگی کے جُرم سے نمٹنے اور اس کی روک تھام کے لیے موثر قانون سازی کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ اس بل کا مقصد ہراسگی کے مُرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دینا اور متاثرہ افراد کو اس طرح تحفظ دینا ہے کہ فرد کی رازداری‘ عزت نفس اور نجی آزادی محفوظ رہے جس کی قانون اور شریعت میں ضمانت دی گئی ہے۔

اس وقت سعودی عرب میں ہراسگی کیسز کی تعداد کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں‘ تاہم شاہ سلمان نے اس کی روک تھام کے لیے قانون وضع کرنے کے احکامات دیئے ہیں تاکہ فرد‘ خاندان اور سماج پر اس کے منفی اثرات اورخطرناک نتائج کو بڑھنے سے روکا جا سکے اور اس قبیح فعل کو ایک جُرم کی صورت میں جانا جائے۔اخبار کے مطابق ہراسگی کے قانون کے نفاد کے بعد پندرہ سال تک کی قید ہو سکے گی اور اس کے علاوہ تیس لاکھ سعودی ریال جُرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔

قانون کی رُو سے ہراسگی کے کیسز میں سرکاری استغاثہ تمام تر تفتیشی کارروائی کا انچارج ہو گا۔ جبکہ وزارتِ داخلہ کو ذمہ داری سونپی جائے گی کہ وہ عوام میں شعور اُجاگر کریں کہ ہراساں کرنے والوں کو کس سنگین قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

متعلقہ عنوان :