متنازعہ کتاب لکھنے پر اسد درانی کی (آج) جی ایچ کیو میں پیش ہونے کی تصدیق

پیش ہو کر کتاب کے حوالے سے وضاحت پیش کرونگا ،ْ امید ہے فوج میرے موقف سے اتفاق کریگی ،ْ سابق سربراہ آئی ایس آئی اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر پاکستان کی خدمت کی ہے ،ْ الزامات لگانے والے لوگوں پر افسوس ہے ،ْ اسد درانی کا ٹوئٹ

اتوار 27 مئی 2018 14:10

راولپنڈی /اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 مئی2018ء)آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے متنازعہ کتاب لکھنے پر (آج)پیر کو جی ایچ کیو میں پیش ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنی نئی کتاب سے متعلق فوج کو اپنا کیس پیش کرینگے ۔اپنے ٹوئٹر پر جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے کہاکہ انہوںنے فوج کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں کی اور انہیں یقین ہے کہ فوج ان کے موقف سے اتفاق کریگی ۔

انہوںنے مزید کہاکہ انہیں اپنے لوگوں کی جانب سے الزامات پر افسوس ہوا ہے ۔سابق آئی ایس آئی چیف نے کہاکہ انہوںنے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر پاکستان کی خدمت کی ہے ۔انہوںنے کہا کہ جن لوگوں نے دوسروں کیلئے خدمت کی ہے انہیں اس طرح صورتحال کا سامنا کر نا پڑتا ہے اور جنہوںنے اپنے مفادات کیلئے غلطیاں کی ہیں انہیں بادشاہ کی طرح کا سلوک کیا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے دو سابق سربراہوں کی کتاب ‘دی سپائے کرونیکلز: را، اٰئی ایس آئی اینڈ دی الوژن آف پیس’ کی اشاعت پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا کہ کتاب پر فوج کو تحفظات ہیںاور ا س سلسلے میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی جی ایچ کیو میں پیش ہو کر وضاحت کریں ۔واضح رہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کی سابق ‘را’ چیف اے ایس دلت کے ساتھ مل کر لکھی ہے ،ْ کتاب ‘دی سپائے کرونیکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الوژن آف پیس’ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان اہم معاملات پر بات کی ۔

کتاب میں جن معاملات پر روشنی ڈالی گئی ،ْ اٴْن میں کارگل آپریشن، ایبٹ آباد میں امریکی نیوی کا اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا آپریشن، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، حافظ سعید، کشمیر، برہان وانی اور دیگر معاملات شامل ہیں۔اس سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف نے جمعہ کو میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسددرانی کی کتاب پرقومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا جائے ۔دوسری جانب سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھی کتاب کی اشاعت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ کتاب کسی سویلین یا سیاستدان نے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر لکھی ہوتی تو اس پر غدار کا فتویٰ لگا دیا جاتا۔