اماراتی شہری کو مُلک کو بدنام کرنے کے الزام میں 10سال قید کی سزا

مُلزم نے سوشل میڈیا پر اپنے مُلک کے خلاف توہین آمیز پراپیگنڈہ شروع کر رکھا تھا

جمعہ 1 جون 2018 14:17

ابو ظہبی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعہ 1 جون 2018ء) ابو ظہبی کی اعلیٰ عدالت نے اماراتی شہری کو اپنے ہی مُلک کو سوشل میڈیا کے مختلف چینلز پر بدنام کرنے کے جُرم میں دس سال قید کے ساتھ ساتھ دس لاکھ امارتی درہم جُرمانے کی سزابرقرار رکھنے کا فیصلہ سُنایا ہے۔ اماراتی شہری امس کو سزا پُوری کرنے کے بعد اگلے تین سال تک خصوصی نگرانی میں رکھا جائے گا۔

عدالت نے فیصلہ سُناتے ہوئے اس جُرم میں استعمال ہونے والی تمام کمیونیکیشنز ڈیوائسز ضبط کرنے‘ ملزم کے تضحیک آمیز پوسٹس ڈیلیٹ کرنے اور اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کرنے کا حُکم بھی سُنایا ہے۔ تاہم ملزم کو ایک غیر مُلکی دہشت گرد تنظیم سے روابط کے اِلزام سے بری کر دیا گیا۔ مُلزم اس بات کا قصوروار پایا گیا کہ اُس نے متحدہ عرب امارات کے متعلق سوشل میڈیا کی مختلف ویب سائٹس( ٹویٹر اور فیس بُک وغیرہ)کو جھوٹی معلومات اور افواہیں پھیلانے اور دروغ بیانی سے کام لے کر فرقہ ورانہ منافرت کو ہوا دینے کی کوشش کی جس سے مُلک میں پائی جانے والی سماجی ہم آہنگی اور باہمی اتحاد کو شدید خطرات لاحق ہو گئے۔

(جاری ہے)

استغاثہ کے مطابق ملزم نے متحدہ عرب امارات کی ساکھ کو دُنیا بھر میں نقصان پہنچانے کی غرض سے غلط اورجھوٹی معلومات کا پرچار کیا ۔ اس کے علاوہ اُس نے اپنے رابطے میں آنے والے سوشل میڈیا کے صارفین کو اس بات کے لیے اُبھارا کہ وہ اماراتی قوانین کی پابندی نہ کریں اور دُنیا بھر میں اس مملکت کی تشہیر بدامنی اور لاقانونیت کے مرکزکے طور پر کریں۔

مئی 2018ء میں اس مقدمے کی پہلی سماعت کے دوران مُلزم نے کورٹ کو بتایا کہ اُس کے پاس اپنے دفاع کے واسطے وکیل مقرر کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔ اس پر عدالت نے مُلزم کے لیے طارق الشمسی نامی وکیل کا تقرر کیا۔ الشسمی نے ابوظہبی کی کورٹ آف اپیل سے درخواست کی کہ مُلزم کو اس پر عائد کئے گئے تمام الزامات سے بری کر دیا جائے۔ مگر عدالت نے اس درخواست پر غیر رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے مُلزم کوماتحت عدالت کی جانب سے سُنائی گئی قید اور جُرمانے کی سزا بحال رکھنے کا حُکم دیا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی 2011ء میں وفاقی سپریم کورٹ کی سٹیٹ سیکیورٹی کورٹ نے ملزم کو امارات کے قائدین کی تضحیک کرنے پر تین سال قید کی سزا سُنائی تھی۔ مُلزم پر الزام تھا کہ اُس نے مملکت کے حکمرانوں کے خلاف شر انگیز اور نفرت پر مبنی تقاریر کیں اور عوامی مقامات پر لیکچرز دیئے‘ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی توہین آمیز پیغام جاری کیے۔

مُلزم انسانی و سیاسی حقوق کی عالمی تنظیموں سے رابطہ کر کے اُنہیں امارات کے بارے میں جھوٹی رپورٹس اور معلومات فراہم کرنے کا قصور وار بھی پایا گیا تھا جس کے باعث مملکت کی ساکھ ‘ خارجہ تعلقات‘ ریاستی پالیسیوں کو نقصان کا خطرہ لاحق ہوا۔ 2011ء میں ابھی اس کی سزا کو کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ اُسے متحدہ عرب امارات کے قابلِ احترام فرماں روا شیخ خلیفہ بن زید النہیان کی جانب سے معافی مِل گئی اور وہ اپنی زندگی کے معمولات کی طرف لوٹ آیا۔

تاہم اُس نے اپنی شر انگیز سرگرمیاں جاری رکھیں اور پہلے سے بھی زیادہ بڑھ کر سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز (ٹوِیٹر اور فیس بُک) کو متحدہ عرب امارات کے قائدین کی کردار کُشی کی غرض سے استعمال کیا۔ اس مقصد کی خاطر اُس نے جھوٹے الزامات پر مبنی آرٹیکلز پوسٹ کیے جس سے مُلکی تشخص کو نقصان پہنچا اور مملکت کے ہمسایہ خلیجی ریاستوں کے ساتھ برادرانہ تعلقات اور مفادات کو نقصان پہنچانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔