بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے پیسہ خرچ کرنے کا اعلان کردیا

کالا باغ ڈیم وقت کی اور ہماری نسلوں کی اہم ضرورت ہے، کالا باغ ڈیم کیلئے میری قوم جتنے چاہے پیسے خرچ کرنے کیلئے تیار ہوں، ہم یوں اپنی نسلیں اور منستقبل محفوظ بنا لیں گے، میں پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں دیکھنا چاہتا ہوں: ملک ریاض

ہفتہ 9 جون 2018 20:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ ہفتہ 9 جون 2018ء) بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے پیسہ خرچ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ملک میں پانی کی شدید قلت کے سر اٹھاتے بحران کے باعث نئے ڈیموں کی تعمیر کیلئے شروع ہونے والی مہم کے حوالے سے اب بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض نے بھی خصوصی ردعمل دیا ہے۔

بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے پیسہ خرچ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ملک ریاض کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم وقت کی اور ہماری نسلوں کی اہم ضرورت ہے۔ کالا باغ ڈیم کیلئے میری قوم جتنے چاہے پیسے خرچ کرنے کیلئے تیار ہوں۔ ہم یوں اپنی نسلیں اور منستقبل محفوظ بنا لیں گے۔ ملک ریاض کا مزید کہنا ہے کہ میں پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں دیکھنا چاہتا ہوں۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ پاکستان میں نئے ڈیموں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ پاکستان میں پانی کی کمی کا بحران تیزی سے شدت اختیار کر رہا ہے۔ جہاں ایک طرف موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان بے حد متاثر ہوا ہے، وہیں دوسری جانب بھارت نے نئے ڈیم بنا کر پاکستان کے دریاوں کا پانی روک لیا ہے۔ اس تمام صورتحال کے باوجود پاکستان میں بننے والی کوئی بھی حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔

پاکستان میں بننے والی زیادہ تر حکومتوں کی توجہ ترقیاتی منصوبے پر ہی مرکوز رہتی ہے۔ پاکستان میں بننے والی حکومتوں نے کبھی بھی مستقبل کی فکر کرتے ہوئے پانی کے مسئلے کے حل کیلئے سنجیدگی سے کوئی کام نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران ہر گزرتے دن کیساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ عالمی موحولیاتی تنظیموں کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔

اسی باعث پاکستان میں پہلے سے قدرے کم بارشیں ہونے لگی ہیں۔ جبکہ پاکستان میں گرمی کے موسم کی شدت اور دورانیہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں ڈیموں کی کمی کے باعث دریاوں کا 90 فیصد پانی بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ پاکستان نے اب تک جو ڈیم تعمیر کیے ہیں، ان کی مدد سے صرف 10 فیصد پانی محفوظ کیا جا سکتا ہے، پانی کی یہ مقدار 22 کروڑ لوگوں کے ملک کیلئے ناکافی ہے۔

اس صورتحال میں حکمراں تو اب بھی خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے، تاہم اب عوام نے اس مسئلے کو حل کروانے کی ذمہ داری خود سنبھال لی ہے۔ پاکستانی عوام کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک بھرپور مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس مہم کا نعرہ ہے کہ "ڈیم بناو، پاکستان بچاو"۔ اس مہم میں شرکت کرنے والے سوشل میڈیا صارفین کا مطالبہ ہے کہ نہ سڑکیں چاہیئں، نہ میڑو بس، نہ ہی اورنج لائن ٹرین، پاکستان کا مستقبل محفوظ بنانا ہے تو نئے ڈیم بنائیں جائیں۔

اگر ملک میں کالا باغ اور دیگر ڈیم تعمیر نہ کیے گئے تو اگلے چند برسوں میں پاکستان پانی کی بوند بوند کو ترسے گا۔ اس مہم کے زور پکڑنے کے بعد اب کالا باغ ڈیم سے بھی کہیں بڑے اور اہم ڈیم کے حوالے سے تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے ضلع سکردو میں کٹزرہ نامی ایک علاقہ موجود ہے۔

اس علاقے میں دریائے سندھ پر انتہائی اونچائی پر ڈیم تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ کٹزرہ ڈیم گلگت بلتستان کے علاقے سکردو میں بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ڈیم 1000 سال تک خطہ کی پانی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔ جبکہ اس ڈیم کو بنانے سے باقی ڈیموں کی عمر بھی بڑھ جائیگی۔ ڈیم میں 35 ملین ایکڑ فٹ پانی سٹور کرنے کی گنجائش ہوگی اور یہ دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم ہوگا۔

جبکہ اس ڈیم سے بجلی کی پیداواری صلاحیت بھی 15000 میگا واٹ ہوگی۔ تاہم اسی حوالے سے پیپلز پارٹی کے دور حکومت کی ایک رپورٹ بھی منظر عام پر آئی ہے۔ یہ رپورٹ واپڈا کی جانب سے تیار کی گئی تھی جس میں کٹزرہ ڈیم کے حوالے سے تفصیلات بتائی گئی۔ واپڈا نے اس ڈیم کی تعمیر ناممکن قرار دے دی تھی۔ واپڈا کی رپورٹ میں موقف اختیار کیا گیا کہ چونکہ ڈیم کی سائٹ ایسے علاقے میں موجود ہے جہاں تک آمد و رفت کے ذرائع بہت محدود ہیں، اس لیے اس ڈیم کو تعمیر کرنا ناممکن دکھتا ہے۔

اگر اس ڈیم کو تعمیر کر بھی لیا جائے تو اس سے گلگت کے کئی علاقے بشمول سکردو کا آبادی والا حصہ پانی میں ڈوب جائے گا۔ جبکہ اس ڈیم کی تعمیر کے باعث پاکستان کی سیاچن کے محاذ تک رسائی بھی مشکل ہو جائے گی۔ واپڈا کی اس رپورٹ کے بعد اس ڈیم کا دوبارہ کبھی ذکر نہیں ہوا۔ تاہم اب دوبارہ سے ملک میں نئے ڈیمز کی تعمیر کی مہم کے آغاز کے بعد اس ڈیم کی تعمیر کا ذکر بھی چھڑ گیا ہے۔