پاکستانی انٹلیجنس اہلکاروں نے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کردی

تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ 13 جون کو امریکی ڈرون میں حملے میں اپنے چار محافظوں سمیت ہلاک ہوئے، بچئی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا

جمعہ 15 جون 2018 15:16

اسلام آباد / کابل (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعہ 15 جون 2018ء) پاکستان انٹلیجنس اہلکاروں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کی افغانستان کے مشرقی صوبے کنڑ کے ضلع مرورہ میں ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پر 13 جون کی رات کو امریکی ڈرون حملہ کیا گیا جس میں وہ اپنے تقریبا 4 محافظوں کے ہمراہ ہلاک ہوگئے ہیں۔

انٹلیجنس ذرائع کے مطابق فضل اللہ 13 جون کو تحریک طالبان سوات کے ایک مرکز میں ایک افطار پارٹی میں شرکت کیلئے گئے تھے ۔ افطاری کے بعد واپس اپنی گاڑی میں جاتے ہوئے ان پر ڈرون حملہ کیا گیا جس سے وہ موقع پر اپنے محافظوں سمیت ہلاک ہوگئے ۔ ان پر حملہ 13 جون کی رات کو تقریبا 10:45 پر کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق حملے میں ہلاک ہونیوالے مکمل طور پر جل گئے تھے اور انہیں 14 جون کی صبح دو بجے بچئی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

(جاری ہے)

انٹلیجنس ذرائع کے مطابق طالبان اس خبر کو صیغہ راز میں رکھ رہے ہیں اور ممکن ہے کہ اس کا اعلان طالبان شوری کی جانب سے نئے سربراہ کے انتخاب کے بعد کیا جائے۔ذرائع کے مطابق فضل اللہ کے ساتھ جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں ان میں مولوی عمر، عمران، ابو بکر اور سجاد شامل ہیں۔ یاد رہے کہ فضل اللہ 1974 میں سوات میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق یوسفزئی قبیلے کی بابوکارخیل شاخ سے تھا اور وہ ایک پاؤں سے معمولی معذور بھی تھے۔

تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے داماد مولوی فضل اللہ نے جہانزیب کالج سوات سے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے تین درجوں تک دینی تعلیم بھی حاصل کی تھی تاہم وہ زیادہ تر صوفی محمد کی صحبت میں رہے جہاں وہ درس و تدریس کے کاموں میں شرکت کرتے رہے۔اکتوبر 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو مولانا صوفی محمد مالاکنڈ ڈویژن سے ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ جنگ کیلئے افغانستان لے گئے جن میں مولانا فضل اللہ بھی شامل تھے۔

افغانستان سے واپسی پر مولانا فضل اللہ گرفتار ہوئے اور تقریباً 17 ماہ تک جیل میں رہے۔انھوں نے 2005 اور 2006 میں سوات میں غیر قانونی ایف ایم ریڈیو چینل شروع کیا جس کی وجہ سے انہیں بہت کم عرصے میں لوگوں میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس ایف ایم چینل پر مغرب خصوصاً امریکہ، حفاظتی ٹیکوں، لڑکیوں کی پڑھائی کیخلاف خطبے دیئے گئے۔2006 میں ملا فضل اللہ نے علاقے میں ‘شریعت ‘کے نفاذ کیلئے عملی اقدمات بھی شروع کر دیئے جس میں مقامی تنازعات کے فیصلے کرنا اور گلی کوچوں میں جنگجوؤں کا گشت شامل تھا۔

بات بڑھتے بڑھتے وادی میں خودکش حملوں، سکولوں پر حملوں اوراغوا کے واقعات میں اضافے تک پہنچی تو مقامی انتظامیہ نے مولوی فضل اللہ کیخلاف کارروائی کا ارادہ کیا جس کے بعد پھر پولیس اور نیم فوجی دستوں کی مشترکہ کارروائی شروع ہوئی۔نومبر 2007 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ اکرم درانی نے وفاقی حکومت سے سوات میں فوج بھیجنے کی درخواست کی اور فوج ایک محدود مینڈیٹ کیساتھ سوات میں آئی۔

تاہم فوجی کارروائیوں کے دوران بھی خودکش حملے، سکولوں پر حملے اور اغوا کے واقعات ہوتے رہے۔ سرکاری دفاتر بہت حد تک محدود ہو کر رہ گئے اور اس کیساتھ ساتھ فضل اللہ نے سوات میں اپنی عدالتیں بھی قائم کر دیں۔فروری 2009 میں خیبر پختونخوا حکومت نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے رہنماء صوفی محمد کیساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے مطابق حکومت سوات اور مالاکنڈ سمیت 8اضلاع میں ایک متوازی نظامِ عدل ’شرعی عدالتوں ‘کا قیام تھا ،اس کے بدلے میں صوفی محمد نے مولانا فضل اللہ کو تشدد سے باز رہنے کیلئے کہا گیا تھا،تاہم مولانا صوفی محمد اپنے داماد مولانا فضل اللہ کے مسلح طالبان کے سامنے بے بس دکھائی دیئے اور وہ معاہدے اور وعدے کے مطابق طالبان کو غیر مسلح کرنے اور انہیں متوازی حکومت چلانے سے روکنے میں ناکام رہے۔

مئی 2009 میں پاکستانی فوج نے سوات میں فیصلہ کن کارروائی شروع کی تو ضلع کے بیشتر مقامات سے مولانا فضل اللہ کے حامی عسکریت پسندوں کو شکست کے بعد نکال دیا گیا۔اسی کارروائی کے دوران مولانا فضل اللہ اچانک غائب ہو گئے اور بعد میں انہوں نے بی بی سی کو ٹیلیفون کر کے افغانستان چلے جانے کی تصدیق کی اور ان کی پاکستان کے کسی علاقے میں موجودگی کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

حکومت پاکستان کے مطابق فضل اللہ سمیت دیگر شدت پسندوں نے افغانستان کے علاقوں کنڑ اور نورستان میں محفوظ ٹھکانے بنا لئے تھے اور وہ وہیں سے پاکستانی علاقوں میں شدت پسندوں کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے رہے جن میں پشاور میں آرمی پبلک سکول کا حملہ بھی شامل ہے جس میں 148 افراد مارے گئے تھے جن میں سے بیشتر بچے تھے۔افغانستان میں ان کے قیام کے دوران افغان سرحد سے متصل پاکستانی علاقے دیر میں سکیورٹی فورسز پر سرحد پار سے ہونے والے متعدد حملوں میں مولانا فضل اللہ کے گروپ کا نام سامنے آتا رہا ہے۔

پاکستان کی جانب سے گذشتہ کچھ عرصے سے اعلیٰ ترین سطح پر امریکی اور افغان حکام پر افغانستان میں موجود ملا فضل اللہ اور ان کے نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے کے مطالبے میں شدت آئی تھی۔پاکستان میں گزشتہ برس شدت پسندی کے واقعات کے بعد پاکستانی سکیورٹی فورسز نے افغان سرزمین پر موجود شدت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں کو اپنی سرزمین سے نشانہ بنایا تھا اور ان کارروائیوں پر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا۔بدھ کی رات افغان صوبہ کنڑ میں فضل اللہ امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے ۔یہ پہلا موقع ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان کا کوئی سربراہ افغان سرزمین پر مارا گیا ہے۔