لوگوں کو پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لگا لگا کر پاگل کردیا ہے۔چیف جسٹس

سیکرٹری پیٹرولیم، سیکرٹری وزارت توانائی، چیئرمین ایف بی آر ، ایم ڈی پی ایس او اور دیگر کو جمعہ کو پیش ہونے کا حکم

جمعرات 21 جون 2018 14:23

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعرات 21 جون 2018ء)چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت اور ان پر اضافی ٹیکس کے معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ لوگوں کو پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لگا لگا کر پاگل کردیا ہے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین اور اضافی ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران ڈپٹی ایم ڈی پاکستان اسٹیٹ آئل یعقوب ستار نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ مختلف ادارے پی ایس او کے 300 ارب روپے کے نادہندہ ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ان اداروں سے 300 ارب روپے واپس کیوں نہیں لے رہے؟ اس کا مطلب ہے آپ بینکوں سے قرض لے کر معاملات چلا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

جس پر یعقوب ستار نے انکشاف کیا کہ پی ایس او نے بینکوں سے 95 ارب روپےقرض لے رکھا ہے، ہر سال اس پر سود کی مد میں 7 ارب روپے ادا کئے جاتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ڈپٹی ایم ڈی پاکستان اسٹیٹ آئل کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لگا لگا کر لوگوں کو پاگل کردیا ہے، یہ کس بات کا ٹیکس ہے سارا حساب دینا ہوگا، پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کا عمل بھی مشکوک لگتا ہے، کس قانون اور طریقہ کار کے تحت 62.8 روپے فی لیٹر کا تعین کیا گیا؟سپریم کورٹ نے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات، گزشتہ 6 ماہ کے آکشنز (بولی) اور قیمتوں کے تعین کا ریکارڈ بھی طلب کرتے ہوئے سیکرٹری پیٹرولیم، سیکرٹری وزارت توانائی، چیئرمین ایف بی آر ، ایم ڈی پی ایس او اور دیگر کو جمعہ کو پیش ہونے کا حکم دے دیا ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ٹیکس لگا لگا کر لوگوں کو پاگل کر دیا، کس بات کا ٹیکس ہے، ساراحساب دینا ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کا عمل مشکوک لگتا ہے،کس قانون اورطریقہ کارکے ذریعے62.8 روپےفی لیٹر کا تعین کیا گیا۔ڈپٹی ایم ڈی پی ایس او نے عدالت کو بتایا کہ مختلف ادارے 300 ارب روپے کے نادہندہ ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ان اداروں سے 300 ارب روپے واپس کیوں نہیں لے رہے ؟ اس کا مطلب ہے آپ بینکوں سے قرض لے کر معاملات چلا رہے ہیں۔

یعقوب ستار نے انکشاف کیا کہ بینکوں سے 95 ارب روپے قرض لے رکھا ہے، ہر سال 7 ارب بینک سود کی مد میں جاتے ہیں۔عدالت میں موجودمیئر کراچی وسیم اختر نے اہم سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پیٹرول جس ریٹ پرپشاور کودیا جارہا ہے اسی پر کراچی کو دیا جارہا ہے، کراچی سے ٹرانسپورٹیشن چارجزکیوں وصول کیے جارہے ہیں؟جس پر چیف جسٹس نے کہا عوام کو ریلیف دینے بیٹھے ہیں،معاملے کا جائزہ لے کرحکم جاری کریں گے۔سپریم کورٹ نے پیٹرولیم قیمتوں کے تعین کے لیے فیصل صدیقی ایڈووکیٹ عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے کہا کہ فیصل صدیقی اوگرا سے معاملے کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں۔