برطانوی دارالعوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کا بل منظور کرلیا

یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں 319 اور مخالفت میں 303 ارکان نے ووٹ دیا آئندہ چند روز میں وائٹ پیپر جاری کیا جائیگا جس میں یورپی یونین سے مستقبل میں تعلقات کا احاطہ کیا جائے گا

جمعرات 21 جون 2018 17:00

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ جمعرات 21 جون 2018ء)برطانوی دارالعوام میں حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کا بل منظور کرلیا گیا۔برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی پر قانون سازی کے لیے دارالعوام میں طویل بحث کے بعد بل منظوری کیلئے پیش کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بل پر ووٹنگ کے دوران 319 ارکان نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ،ْ 303 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

بل پر ووٹنگ کیلئے بیمار رکن پارلیمنٹ ناز شاہ کو وہیل چیئر پر ہسپتال سے لایا گیا جنہیں 10 منٹ کا کہہ کر 3 گھنٹے تک ایوان میں رکھا گیا ،ْاسی طرح ایک اور حاملہ رکن پارلیمنٹ کو ووٹ دینے کے لیے مجبور کیا گیا جو بیماری کی حالت میں ایوان میں آئیں۔

(جاری ہے)

بل کی منظوری کے بعد برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے علیحدگی مشکل قدم ہے تاہم ووٹ نے برطانیہ کے عوام کی اکثریت ظاہر کردی ہے۔

تھریسامے نے کہا کہ عوام کے منتخب نمائندوں نے عوام کی خواہش کے مطابق فیصلہ کیا، آئندہ چند روز میں وائٹ پیپر جاری کیا جائیگا جس میں یورپی یونین سے مستقبل میں تعلقات کا احاطہ کیا جائے گا۔برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بریگزٹ نے برطانوی شہریوں کو سنہرے مستقبل کے علاوہ اپنے پیسے، قانون اور سرحد پر کنٹرول کی راہ دی ہے ۔یاد رہے کہ 23 جون 2016 کو برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق عوامی رائے جاننے کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا۔

عوام کی اکثریت نے یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے حق میں ووٹ دیا جبکہ اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بریگزٹ کے مخالف تھے، اس لیے انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ڈیوڈ کیمرون کے بعد برطانوی وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد تھریسامے کے لیے سب سے بڑا چیلنج بریگزٹ پر عمل درآمد کا آغاز تھا جس کے لیے یورپی یونین سے مذاکرات کے متعدد دور ہوئے جس کے دوران مختلف امور پر اتفاق رائے کیا گیا۔

برطانیہ کی 50 فیصد تجارت یورپی یونین کے ساتھ ہوتی ہے، جہاں یورپی یونین کے ممبران ممالک کے درمیان کوئی ٹیکس نہیں ہے البتہ خود مختاری کے معاملے میں برطانیہ کو فائدہ ہوگا اور وہ اپنے داخلی معاملات میں خود مختار ہوگا ۔امیگریشن کے معاملے میں یورپی یونین چھوڑنے کا برطانیہ کو فائدہ ہی ہوگا۔ بحیثیت رکن یورپی یونین، برطانیہ میں یورپ کے کسی بھی ملک کے شہری یہاں آسکتے تھے اور اسی وجہ سے برطانیہ میں لوگوں کی بہت بڑی تعد اد آکر بسنے لگی۔

صرف یورپ سے تقریباً 17 لاکھ افراد روزگار کے سلسلے میں برطانیہ میں ہیں اور بریگزٹ کے بعد برطانیہ اپنے سرحدی کنٹرول کے معاملے میں آزاد ہوگا۔یورپی یونین چھوڑنے سے برطانوی شہریوں کے لیے یورپی یونین میں نوکری کا آسرا ہاتھ سے نکلے گا اور مجموعی طور پر برطانیہ کے ہاتھ سے 30 لاکھ نوکریاں نکل جائیں گی۔