مظفر گڑھ کے رہائشی میاں محمد حسین پاکستان کے امیر ترین سیاستدان

اصل اثاثے ظاہر کرکے دیگر تمام سیاستدانوں کو شرم دلا دی، حیران کن طور پر میاں محمد حسین بے تحاشہ دولت ہونے کے باوجود کسی بڑی سیاسی جماعت کی نظر میں نہ آ سکے، الیکشن آزاد امیدوار کی حیثیت میں لڑیں گے

ہفتہ 23 جون 2018 19:48

مظفرگڑھ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ ہفتہ 23 جون 2018ء) مظفر گڑھ کے رہائشی میاں محمد حسین پاکستان کے امیر ترین سیاستدان ہیں۔ میاں محمد حسین نے اپنے اصل اثاثے ظاہر کرکے دیگر تمام سیاستدانوں کو شرم دلا دی ہے۔ تاہم حیران کن طور پر میاں محمد حسین بے تحاشہ دولت ہونے کے باوجود کسی بڑی سیاسی جماعت کی نظر میں نہ آ سکے، الیکشن آزاد امیدوار کی حیثیت میں لڑیں گے۔

تفصیلات کے مطابق عام انتخابات 2018ء میں ایک ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے۔ عام انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدواروں نے الیکشن کمشین میں اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ ساتھ بیان حلفی بھی جمع کروائے جس میں اُمیدواروں کی جائیدادوں سے متعلق اہم انکشافات بھی ہوئے۔ تاہم اب عام انتخابات 2018ء میں حصہ لینے والے سب سے امیر اُمیدوار کا نام سامنے آ گیا ہے۔

(جاری ہے)

میڈیا رپورٹ کے مطابق مظفر گڑھ کا رہائشی میاں محمد حسین عام انتخابات 2018ء میں حصہ لینے والا امیر ترین اُمیدوار ہے۔ مظفر گڑھ کا رہائشی میاں محمد حسین کھرب پتی اُمیدوار ہے۔ میاں محمد حسین کے اثاثوں کی مالیت 4 کھرب اور 3 ارب سے زائد ہے۔ میاں محمد حسین قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 182 سے آزاد اُمیدوار کی حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیں گے۔

اس حلقہ میں میاں محمد حسین کے مد مقابل جمشید دستی اور حنا ربانی کھر ہیں۔ میاں محمد حسین سے متعلق تفصیلات سامنے آنے کے بعد وہ سوشل میڈیا پر عوام کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ دیگر سیاستدانوں کے برعکس، میاں محمد حسین نے سچائی اور ایمانداری کی شاندار مثال قائم کی ہے۔ میاں محمد حسین نے اپنے اثاثوں کی اصل مالیت چھپانے یا کم کرکے بتانے سے گریز کیا۔

میاں محمد حسین نے تمام سیاستدانوں کیلئے مثال قائم کرتے ہوئے اپنے کل دولت کی اصل مالیت ظاہر کی ہے۔ میاں محمد حسین کی کل دولت کی اصل مالیت 4 کھرب اور 3 ارب روپے سے زائد ہے۔ ایمانداری کیساتھ اپنے اثاثوں کی تفصیلات بتانے کے بعد سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کی جانب سے میاں محمد حسین کی خوب تعریف کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے میاں محمد حسین کو پاکستان کا سب سے مثالی سیاستدان بھی قرار دے دیا ہے۔

دوسری جانب سے ایک حیران کن بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ میاں محمد حسین بے تحاشہ دولت ہونے کے باوجود کسی بڑی سیاسی جماعت کی نظر میں نہ آ سکے۔ خاص کر تحریک انصاف اور ن لیگ جیسی سیاسی جماعتیں مالی طور پر مضبوط امیدواروں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ اس کے باوجود میاں محمد حسین کبھی بھی ان سیاسی جماعتوں کی نظر میں نہیں آئے۔ خاص کر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے امیدوار جنہیں مضبوط مالی پوزیشن ہونے کے باعث اے ٹی ایم بھی کہا جاتا ہے، ایسے امیدواروں کو اپنی جماعت میں شامل کرنے کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

ایسے میں سوشل میڈیا پر جاری بحث میں صارفین کی جانب سے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ میاں محمد حسین تو عمران خان کی اے ٹی ایم کے طور پر مشہور رہنماوں علیم خان اور جہانگیر ترین سے بھی زیادہ امیر ہیں، پھر کیوںکر اور کیسے یہ رہنما کبھی بھی عمران خان کی نظر میں نہیں آئے۔ دوسری جانب میاں محمد حسین نے بھی مضبوط مالی پوزیشن ہونے کے باوجود کسی سیاسی جماعت کا حصہ بننے کی بجائے آزاد حیثیت میں ہی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

 دوسری جانب واضح رہے کہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اُمیدواروں کو کاغذات نامزدگی کے ساتھ ساتھ بیان حلفی بھی جمع کروانا ہے ۔ بیان حلفی میں کئی سیاستدانوں کی جائیدادوں سے متعلق انکشاف ہوا تو کسی کی دو شادیوں سے متعلق خبر موصول ہوئی۔ ایک طرف جہاں سیاسی اٗمیدوار انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بیان حلفی جمع کروا رہے ہیں وہیں دوسری جانب عام انتخابات میں کاغذات نامزدگی کے ساتھ ساتھ بیان حلفی جمع کروانا کئی سیاستدانوں کے لیے درد سر بن گیا ہے جس کے پیش نظر کئی سیاستدانوں نے اپنے کاغذات نامزدگی ہی جمع نہیں کروائے۔

قومی اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت تاحیات نااہلی، چھُپی ہوئی آمدن سامنے آنے کا ڈر یا ایف بی آر میں اثاثے منظرعام پر آنے ، نیب میں آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے ریفرنس بن جانے کا خوف یا کچھ اور۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2013ء کی نسبت سال 2018ء کے عام انتخابات میں کم اُمیدواران میدان میں اُترے ہیں۔ سال 2013ء اور سال رواں 2018ء کے عام انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے اُمیدواروں کے تقابلی جائزہ کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کروانے والے اُمیدواران کی تعداد میں7 ہزار کی کمی ہوئی ہے ۔

اعدادوشمار کے مطابق 2013ء میں 28 ہزار 302 اُمیدواروں نے کاغذات جمع کروائے جب کہ انتخابات 2018ء کے لیے صرف 21 ہزار 482 اُمیدواروں نے کاغذات جمع کروائے ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیے اُمیدواروں کی تعداد 7 ہزار 996 سے کم ہو کر 5 ہزار 473 ہے جب کہ صوبائی اسمبلیوں کے لیے 18 ہزار 825 اُمیدواروں سے کم ہو کر 13 ہزار 693 ہوگئی ہے ۔ قومی اسمبلی میں خواتین کے لیے مختص نشستوں پر اُمیدواروں کی تعداد 350 سے بڑھ کر 436 ہوگئی اور صوبائی اسمبلیوں میں یہ تعداد 821 سے بڑھ کر 1255 ہوگئی ہے ۔

الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے اقلیتی امیدواروں کی تعداد میں کوئی رد و بدل نہیں ہوا اور 2013ء کی طرح اس مرتبہ بھی اقلیتی نشستوں پر 154 اُمیدوار سامنے آئے ہیں جب کہ صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتی اُمیدواروں کی تعداد 310 سے بڑھ کر 471 ہوچکی ہے ۔واضح رہے کہ آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدواروں کے لیے بیان حلفی جمع کروانا لازم قرار دیا گیا ہے جس کے پیش نظر کئی سیاستدانوں نے کاغذات نامزدگی جمع ہی نہیں کروائے ۔