سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کو لوگوں سے رقومات کی وصولی سے روک دیا،

ناجائز قبضوں کے ذریعے خیراتی کاموں کی بدولت غیرقانونی کاموں کی تعریف نہیں کرسکتے ،عدالت کراچی میں بلندوبالا عمارتوں کی تعمیر پر پابندی عائد کرچکی ہے، بحریہ ٹاؤن کو 20 منزلہ عمارت تعمیر کرنے کی اجازت کس نے دی،اب بحریہ ٹائون نے کوئی نیا منصوبہ نہیں بنانا ورنہ تمام کام بند کرا دوں گا، جس دن ملک ریاض کو کچھ ہو گیا تو سب کچھ ڈوب جائے گا،چیف جسٹس،جب بھی مجھے سپریم کورٹ نے بلایا ،میں حاضر ہوا ہوں،میری استدعا ہے کہ سپریم کورٹ ایسا فیصلہ نہ دے جس سے بحریہ ٹائون کے ملازمین متاثر ہوں،ملک ریاض

منگل 26 جون 2018 23:29

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل 26 جون 2018ء)سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کو لوگوں سے رقومات کی وصولی سے روکتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ناجائز قبضوں کے ذریعے خیراتی کاموں کی بدولت غیرقانونی کاموں کی تعریف نہیں کرسکتے ،بحریہ ٹاؤن پیسے وصول کرنے کے لیے لوگوں کو نوٹس دے رہا ہے،بحریہ ٹاؤن نے لوگوں سے پیسوں کی وصولی کیلئے اکاونٹ کھول لئے ہیں جو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے،عدالت کراچی میں بلندوبالا عمارتوں کی تعمیر پر پابندی عائد کرچکی ہے، توبحریہ ٹاؤن کو 20 منزلہ عمارت تعمیر کرنے کی اجازت کس نے دی ہے ، منگل کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ، اس موقع پربحریہ ٹائون کے وکیل اعتزاز احسن نے عدالت میں پیش ہو کربتایا کہ اس کیس میں علی ظفر نے التوا کی درخواست دائر کررکھی ہے، چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ جب عدالت کراچی میں بلندوبالا عمارتوں کی تعمیر پر پابندی عائد کرچکی ہے، توبحریہ ٹاؤن کو 20 منزلہ عمارت تعمیر کرنے کی اجازت کس نے دی،بحریہ ٹاؤن پیسے وصول کرنے کے لیے لوگوں کو نوٹس دے رہا ہے لوگوں سے پیسوں کی وصولی کیلئے اکائونٹس کھولے گئے ہیں جو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے، چیف جسٹس نے مزید کہاکہ کیا ملک ریاض کو عدالت میں آکر کھڑا ہونا معیوب لگتا ہی آپ اپنے موکل کو کہیں کہ وہ نیب کے سامنے پیش ہوں، ان کو لے کر آئیں، سوال یہ ہے کہ جب اس ملک کو کھایا گیا ہے تو پھر اس کو لوٹائیں بھی، لیکن ہم یہ نہیں کرسکتے کہ رابرٹ ہڈ کی طرح چوری کرکے رقم واپس لوگوں میں بانٹنے کے عمل کو درست قرار دیدیں، مجھے یقین ہے کہ ایک وقت آئے گا جب آپ اپنے موکل کے خلاف دلائل دیں گے ،وہ توسیاست میں لوگوں کا اکھاڑتا پچھاڑتا بھی ہے، سماعت کے دوران ملک ریاض نے عدالت میں پیش ہوکربتایا کہ جب بھی مجھے سپریم کورٹ نے بلایا ،میں حاضر ہوا ہوں ایک استفسار پر انہوں نے بتایا کہ میں نے کراچی میں بحریہ ٹاؤن منصوبہ اس لئے بنایا تاکہ پاکستان تیسری دنیا سے پہلی دنیا میں شامل ہو،میں کوئٹہ اور مری میں بھی منصوبے بنائوں گا, لیکن میں یقین دلاتاہوں کہ عدالت مجھے جو حکم دے گی اس پر عمل کر وں گا، لیکن میری استدعا ہے کہ سپریم کورٹ ایسا فیصلہ نہ دے جس سے بحریہ ٹائون کے ملازمین متاثر ہوں، انہوں نے بحریہ ٹائون کے منصوبوں کے حوالے سے بتایا کہ میں نے جوبھی بنایا ہے اسے مکمل طورپربنایا ہے جس کی مثال یہ ہے کہ اس وقت ملک میں لوڈشیڈنگ ہے مگر بحریہ ٹاون میں 24 گھنٹے بجلی آتی ہے،جہاں کلاشنکوف تھی اور کوئی انسان نہیں جاتا تھا وہاں ہم نے تعمیراتی منصوبے بنائے ہیں ، میں نے تعلیمی ادارے بنائے، ہسپتال بنوائے ،کراچی میںدنیا کی تیسری بڑی مسجد یہاں بنائی ہے ، خیراتی ادارے قائم کئے ہیں جہاں لوگوں کوسہولیتیں ملتی ہیں،انہوں نے عدالت کومزبد بتایا کہ نیب کی وجہ سے لوگوں کی جائیدادوں کی قیمتیں تباہ ہورہی ہیں، میری استدعا ہے کہ مقدمے کا حتمی فیصلہ ہونے تک نیب کو روکا جائے ، چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ ملک صاحب آپ نے بہت کچھ کرلیا اب اپنی آخرت بھی سنواریں،ہمیں بتائیں کہ آپ کو اپنی زندگی گزارنے کیلئے کتنے پیسے درکار ہیں ، جس پرملک ریاض نے کہا کہ میں کلمہ پڑھ کر کہتا ہوں کہ مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں، جس پرچیف جسٹس نے کہاکہ اگرآپ کوپیسوں کی ضرورت نہیں تواسے قوم کے حوالے کر دیں,لوگوں کو ا پنی امانتیں لوٹا دیں، ملک ریاض نے کہاکہ اس وقت عدالت میں تخت پڑی کا جو مقدمہ چل رہا ہے نیب اسے کلیئر قرار دے چکا ہے، چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ اس وقت نیب کلیئرنس پر نہ جائیں، سوال یہ ہے کہ غیر قانونی اور ناجائز طور پر قبضہ کرکے خیراتی کام نہیں ہوتے، ملک ریاض نے کہاکہ میں توخود کینسر کا مریض ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ ملک صاحب آپ بہت طاقتور ہیں آپ کے خلاف کوئی سر اٹھا کر نہیں سکتا، توملک ریاض نے کہاکہ اللہ کی قسم طاقتور صرف اللہ کی ذات ہے، چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ آپ 20ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع کروائیں،ملک ریاض نے کہاکہ یہ توبہت زیادہ رقم ہے جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ 2 ارب روپے تو میں نے ماڑے لوگوں سے نکلوائے ہیں، دوسری طرف سچ یہ ہے کہ آپ کے دینی کاموں کی وجہ سے ہم غیر قانونی کاموں کی اجازت نہیں دے سکتے، ملک ریاض نے کہاکہ میں نے بزرگ لوگوں کیلئے اولڈ ایچ ہوم بنایا ہے جبکہ ہمارے ہسپتالوں میں یورپ اور امریکہ جیسی سہولیات دستیاب ہوتی ہیں، ہم نے کراچی میں تعلیمی اداروں کے ساتھ چڑیا گھر اور تفریحی مقامات بنائے ہیں لیکن نیب کی وجہ سے لوگوں کی پراپرٹی کے ریٹ تباہ و برباد ہورہے ہیں، میری گزارش ہے کہ آپ بحریہ ٹاؤن کا دورہ کریں، جس پرچیف جسٹس نے کہاکہ کیامیں نے بحریہ ٹاؤن جاکر خود پر الزام لگوانا ہے، عدالت آ پ کی جائیداد قرق کردیتی ہے ، ملک ریاض نے کہاکہ میری کوئی جائیداد نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ جہاں آپ رہتے ہیں وہ گھر قرق کرلیتے ہیں ، ملک ریاض نے کہاکہ وہ گھر میری بیوی کے نام ہی, چیف جسٹس نے کہا کہ ملک صاحب آپ سو کنال کا گھر بنا رہے ہیں, ملک ریاض نے کہاکہ خدا کیلئے جورقم مانگی جارہی ہے اسے کم کرکے 5 ارب روپے کی جائے ،تین مرتبہ خدا کا واسطہ دے چکا ہوں, جس پرچیف جسٹس نے ان کو متنبہ کیا کہ وہ عدالت کے احترام کو سامنے رکھیں, سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہاکہ میں کل حیدرآباد سے بچوں کے ہمراہ آرہا تھا تومیری بیوی نے کہاکہ بحریہ ٹاؤن چلیں،میں نے کہاکہ خدا کاواسطہ،کوئی دولت کو قبر میں لے کر نہیں جاتا، جبکہ خیر خیرات کا کام رشوت دے کر نہیں ہو تا ، ملک ریاض نے کہاکہ اللہ کی قسم میں نے کسی کو رشوت نہیں دی، چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ کل بھی ایئر پورٹ پر لوگوں نے منتیں کیں کہ ہماری سرمایہ کاری ڈوب جائے گی، ایک زمانے میں ملک صاحب میرے کلائنٹ تھے، اب بحریہ ٹائون نے کوئی نیا منصوبہ نہیں بنانا ورنہ تمام کام بند کرا دوں گا، جس دن ملک ریاض کو کچھ ہو گیا تو سب کچھ ڈوب جائے گا, ملک ریاض نے کہاکہ مجھ پر اتنا بوجھ ڈالا جائے جسے اٹھا سکوں, چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ چلو آپ دس ارب روپے جمع کرا دیں چیف جسٹس نے واضح کیا کہ عدالت ملک ریاض سے پیسے لے کر سندھ حکومت کو نہیں دے گی بلکہ یہ پیسہ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر کے لئے جائے گا، سماعت کے دوران ملک ریاض نے کہا کہ وہ پانچ ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع کرانے کیلئے تیار ہیں جس پرچیف جسٹس نے ان کی استدعا قبول کرتے ہوئے واضح کیا کہ ملک ریاض اور ان کے اہل خانہ اپنی کوئی بھی جائیداد بیچ نہیں سکتے، جس پرملک ریاض نے استدعاکی کہ میرے اہل خانہ کے حوالے سے جائیداد سے متعلق حکم نہ لکھوا یا جائے جس پر عدالت نے ملک ریاض کے اہلخانہ کی جائیداد نہ بیچنے سے متعلق حکم واپس لیتے ہوئے ہدایت کہ وہ آج بدھ تک پانچ ارب روپے عدالت میں جمع کرائیں بعدازاں مزید سماعت 20 جولائی تک ملتوی کردی۔