سعودی عرب: لاکھوں غیر مُلکیوں کے رُخصت ہونے کے باوجود مقامی باشندے ملازمتوں سے محروم

ناقص معیارِ تعلیم ‘ ٹیکنیکل اور ووکیشنل اداروں کی کمی اہم وجوہات قرار

پیر 9 جولائی 2018 17:17

باہا(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ پیر 9 جولائی 2018ء) سعودی عرب کے شماریاتی ادارے نے بتایا ہے کہ سال 2018ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران دو لاکھ چونتیس ہزار غیر مُلکیوں نے سعودی سرزمین کو خیر باد کہہ دیا ۔ یعنی اوسطاً ہر روز 2602 افراد سعودی عرب سے اپنے آبائی مُلکوں کو لوٹ گئے۔ مگر اس کے باوجود سعودی افراد کی شرح بے روزگاری میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے‘ یہ شرح ابھی تک 12.9 فیصد پر قائم ہے۔

ادارے کے مطابق وزارت برائے محنت و سماجی ترقی سعودی مرد و خواتین میں بے روزگاری کی شرح گھٹانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ابھی بھی 60 سال سے زائد العمر تین لاکھ بیس ہزار غیر مُلکی باشندے ریاست میں ملازمتوں پر فائز ہیں۔ اسی طرح مملکت میں چوبیس لاکھ غیر مُلکی سپورٹ انجینئر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ اسی شعبے میں مقامی افراد کی تعداد 22لاکھ کے قریب ہے۔

(جاری ہے)

سعودی انجینئرز شاکی ہیں کہ اُنہیں ملازمتیں نہیں مِل رہیں۔ ٹیکنیشن کے طور پر کام کرنے والے غیر مُلکی ورکروں کی تعداد چوبیس لاکھ اٹھاسی ہزار ہے جبکہ سعودی ٹیکنییشنز کی گنتی بیس لاکھ ساٹھ ہزار ہے۔ ٹیکنیکل سپیشلسٹس کے عہدوں پر فائز غیر مُلکیوں کی تعداد دو لاکھ اٹھاسی ہزار جبکہ سعودیوں کی گنتی ایک لاکھ چونسٹھ ہزار کے قریب ہے۔ سال رواں کی پہلی سہ ماہی کے دوران سرکاری شعبوں میں غیر مُلکیوں کی بھرتی کے لیے 14,352 ویزے جاری کیے گئے جن میں 5,920 خواتین بھی شامل ہیں۔

جبکہ نجی شعبے کی جانب سے مختلف ملازمتوں کے لیے 1,05,900 افراد کوویزوں کا اجراء کیا گیا۔ سرکاری اور نجی شعبوں میں مینجمنٹ اور ایگزیکٹو عہدوں پر فائز سعودیوں کی تعداد ایک لاکھ اُنسٹھ ہزار ہے جبکہ انہی عہدوں پر براجمان غیر مُلکیوں کی گنتی صرف پینسٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ غیر مُلکی ملازمین سیلز‘ سروسز‘ زراعت‘ مویشی اور مرغی فارمز سے منسلک ہیں۔

اس کے علاوہ اُن کی بڑی تعداد انڈسٹریل‘ کیمیکل‘ انجینئرنگ اور ٹیکنیکل شعبوں میں بھی خدمات نبھا رہی ہے۔ سعودی باشندے عثمان بن صالح نے بے روزگار سعودیوں کوایسے بے پھل درختوں سے تشبیہ دے ڈالی ہے جو صرف سجاوٹ کے کام آتے ہیں۔ اُن کے مطابق ’’اگرچہ میرے بچوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے مگر پھر بھی وہ نجی اور سرکاری دونوں شعبوں میں مناسب ملازمت سے تاحال محروم ہیں۔

ماضی میں سرکاری ملازمین سعودیوں کو اُن کی کم تعلیمی قابلیت کے باوجود بھرتی کرنے کے معاملے میں سبقت لے جانے کے چکر میں رہتے تھے۔ مگر اب سب کچھ بدل گیا ہے۔‘‘ سابق وزیر برائے محنت غازی الغصیبی نے سکولوں کے نصابِ تعلیم میں تبدیلی کے علاوہ ووکیشنل اور ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹرز کے قیام پر زور دیا تھا تاکہ سعودیوں کی ہُنر مُندی اُنہیں ملازمتوں میں خاطر خواہ حصّہ دلوا سکے۔