افواج پاکستان کا انتخابات میں براہ راست کوئی تعلق نہیں ، افواج پاکستان اس انتخابی عمل میں مکمل طور پر غیر سیاسی اور غیر جانبدار رہتے ہوئے کردارادا کریں گی ،

پاک فوج کی کوئی سیاسی جماعت یا وابستگی نہیں ہے، الیکشن پر فوج سے زیادہ کوئی مطمئن اور خوش نہیں ہے، 25 جولا ئی کوعوام ملک کو ایک نئی جمہوری حکومت کی طرف لے کر جائیں گے، پاکستان کے عوام کسی کو بھی منتخب کریں، جسے نتائج کے بعد وزیراعظم مقرر کیا جاتا ہے وہی وزیراعظم ہوگا، پاک فوج ایسا ماحول فراہم کرے گی کہ ووٹر کو کسی بھی دباؤ میں نہ لایا جائے اور وہ اپنی مرضی سے ووٹ دے، الیکشن کا عمل کسی بھی قسم کی بے ضابطگی تعصب اور پسندو ناپسند سے بالاتر ہو، بیلٹ باکس میں 100 ووٹ ڈالے گئے ہوں تو 100 ہی نکلیں، کہیں بھی افواج پاکستان کے نمائندے بے ضابطگی دیکھیں گے تو الیکشن کمیشن کو بتائیں گے، امیدواروں کو جیپ کے نشانات آئی ایس آئی یا فوج نے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن نے الاٹ کیے ہیں ، ملک بھر میں 85 ہزار 307 پولنگ اسٹیشنز48 ہزار 500 عمارتوں میں بنائے گئے ہیں جن کی سکیورٹی کے لیے 3 لاکھ 71 ہزار 388 اہلکار درکار ہیں، ہر پولنگ سٹیشن کے اندر دو ،دو فوجی اہلکار تعینات ہوںگے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی میڈیا بریفنگ

منگل 10 جولائی 2018 21:17

راولپنڈی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل 10 جولائی 2018ء)پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ افواج پاکستان کا انتخابات میں براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے، افواج پاکستان اس انتخابی عمل میں مکمل طور پر غیر سیاسی اور غیر جانبدار رہتے ہوئے ادا کریں گی ،پاک فوج کی کوئی سیاسی جماعت یا وابستگی نہیں ہے، الیکشن پر فوج سے زیادہ کوئی مطمئن اور خوش نہیں ہے، الیکشن سے متعلق تمام شکوک و شبہات دم توڑ گئے، 25 جولا ئی کوعوام ملک کو ایک نئی جمہوری حکومت کی طرف لے کر جائیں گے، پاک فوج اللہ تعالی کی مخلوق ہے جو جانوں کا نذرانہ دیتے ہوئے پاکستان کے عوام کے لئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی رہے گی، پاکستان کے عوام کسی کو بھی منتخب کریں، جسے نتائج کے بعد وزیراعظم مقرر کیا جاتا ہے وہی وزیراعظم ہوگا، پاک فوج ایسا ماحول فراہم کرے گی کہ ووٹر کو کسی بھی دباؤ میں نہ لایا جائے اور وہ اپنی مرضی سے ووٹ دے، الیکشن کا عمل کسی بھی قسم کی بے ضابطگی تعصب اور پسند ناپسند سے بالاتر ہو، بیلٹ باکس میں 100 ووٹ ڈالے گئے ہوں تو 100 ہی نکلیں، پاکستان میں ایسے کونسے الیکشن ہیں جن میں دھاندلی کے الزامات اور پارٹیاں چھوڑنے کی روایت برقرار نہ رہی ہو، کہیں بھی افواج پاکستان کے نمائندے بے ضابطگی دیکھیں گے تو الیکشن کمیشن کو بتائیں گے، امیدواروں کو جیپ کے نشانات آئی ایس آئی یا فوج نے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن نے الاٹ کیے ہیں ، ملک بھر میں 85 ہزار 307 پولنگ اسٹیشنز48 ہزار 500 عمارتوں میں بنائے گئے ہیں جن کی سکیورٹی کے لیے 3 لاکھ 71 ہزار 388 اہلکار درکار ہیں، ہر پولنگ سٹیشن کے اندر دو ،دو فوجی اہلکار تعینات ہوںگے۔

(جاری ہے)

وہ منگل کو آئی ایس پی آر ڈائریکٹوریٹ میں میڈیا کو الیکشن کی تیاریوں سے متعلق بریفنگ دے رہے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ الیکشن کے انعقاد سے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار ہوتا رہا ہے، آپ نے دیکھا کہ تمام شکوک و شبہات دم توڑ گئے، 25 جولا ئی کوعوام ملک کو ایک نئی جمہوری حکومت کی طرف لے کر جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 2013 کے انتخابات نسبتاً مشکل تھے، اس وقت دہشتگردی کے واقعات ہورہے تھے، 2013کے عام انتخابات میں 70 ہزار185 پولنگ اسٹیشنز کیلئے 75 ہزار اہلکاروں نے الیکشن ڈیوٹیاں انجام دی تھیں، اب 2018 کے الیکشن میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ پولنگ اسٹیشنز ہیں اور ہمیں جو کام بتایا گیا ہے اس کے لیے 3 لاکھ 71 ہزار سے زائداہلکار درکار ہوں گے، الیکشن میں بحریہ اور فضائیہ کے اہلکار بھی ڈیوٹی پر ہوں گے، 20 ہزار سے زائد پولنگ حساس پولنگ اسٹیشنز ہیں، 2 جوان پولنگ اسٹیشن کے اندر اور 2 باہر ڈیوٹی پر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ فوج 2018 کے الیکشن میں پہلی بار تعینات نہیں ہو رہی، ماضی میں بھی فوج انتخابات میں خدمات انجام دیتی رہی ہے، 25 جولائی کو بھی الیکشن کمیشن کی معاونت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کے انعقاد میں پاک فوج کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہے، الیکشن کے انعقاد میں معاونت کرنا ہماری ذمہ داری ہے، پاک فوج پر امن اور شفاف ماحول کے لیے معاونت کرے گی تاکہ تمام سیاسی جماعتوں کو کسی ناخوشگوار واقعے کے بغیر تمام انتخابی عمل کے لیے محفوظ ماحول دستیاب ہو۔

انہوں نے کہا کہ بیلٹ پیپرز کی ترسیل فوج کی نگرانی میں ہوگی، ہم نے اسے صرف محفوظ طریقے سے پہنچانا ہے، الیکشن کے بعد بیلٹ باکسز کو محفوظ طریقے واپس بھیجنے کیلئے بھی فوج سکیورٹی دے گی، فوج کا کام یہ ہے کہ انتخابی مواد بغیر کسی رکاوٹ کے مقررہ مقامات تک پہنچایاجائے، جبکہ پرنٹنگ پریس سے میٹریل نکلنے کے بعد بھی سکیورٹی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ پوری فوج کو ایسا آرڈر جاتا ہے جو کمانڈ کو مضبوط کرتاہے اور ہمیں حکم ہے کہ غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہوتے ہوئے الیکشن کمیشن کی مد دکریں، افواج پاکستان اس انتخابی عمل میں مکمل طور پر غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہوتے ہوئے ادا کریں گی اور الیکشن کے عمل میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سب سے پہلا کام ملک میں امن وامان کے ماحول کی فراہمی ہے، الیکشن سے تین روز قبل سکیورٹی کی ذمہ داری پوری ہوجائے گی، امن و امان کی بنیادی ذمہ داری پولیس سمیت سول آرمڈ فورسز کی ہوگی، پولنگ سٹیشن کے اندر موجود جوان کی بنیادی ذمہ داری شفاف الیکشن میں رکاوٹ کا معاملہ دیکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے تصدیق شدہ افراد کو الیکشن ڈیوٹی کارڈز دیئے جائیں گے اور غیر ملکی مبصرین بھی کارڈ کے مطابق پولنگ سٹیشن کے اندر جائیں گے، اندر موجود جوان کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ غیر متعلقہ شخص کو پولنگ بوتھ کے اندر نہ آنے دے۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ کسی کو ووٹر کے ساتھ زبردستی کرنے کی کی اجازت نہیں ہوگی، کسی جگہ کسی بے ضابطگی کی صورت میں پولنگ بوتھ کے اندر تعینات جوان وہاں موجود افسر اور الیکشن کمیشن کے عملہ کو بتائے تاکہ مسئلہ حل ہو اور سنگینی کی صورت میں مسئلے کے حل تک پولنگ روک دی جائے گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ میڈیا نمائندوں سے اپیل ہے کہ الیکشن ڈیوٹی پر کھڑے جوان سے سوالات کرنے سے گریز کریں، ہر شہر میں آئی ایس پی آر کے نمائندے ہوں گے، ان سے رابطہ کیا جائے، اس لیے ڈیوٹی پر موجود جوان تک نہ جائیں کیونکہ جب ایک سپاہی کھڑا ہے اس کا مطلب یہ نہیں وہ ایک ہے، وہ پوری فوج کا نمائندہ ہے، اسے اپنی فوج سمجھ کر تعاون کریں، اس کے ساتھ کوئی ایسا رابطہ نہ کریں جو اس کی ڈیوٹی کی راہ میں رکاوٹ بنے، عوام کی محبت ایک جگہ لیکن فوج اپنے جوانوں کا خیال رکھتی ہے، ان سے محبت کا اظہار یہی ہے کہ اس کی ڈیوٹی میں خلل نہ ڈالیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہماری کوئی سیاسی جماعت نہیں، صرف پاکستان کے عوام ہی ہمارا مفاد ہیں، عوام کے لیے ضروری ہے الیکشن بہت اچھے طریقے سے ہوں، جتنی تعداد میں ووٹ ڈالے جائیں اتنے ہی باہر آئیں تب ہی اتنا ہی شفاف الیکشن ہوگا، عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ووٹ ڈالیں، جو پارٹی اور لیڈر انہیں پسند ہے کسی خوف کے بغیر اسے ووٹ ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج کی ایک عزت ہے، سپاہی ہمارے حکم پر جان دینے کے لیے تیار ہوتا ہے، اسے غلط حکم نہیں دے سکتے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اس سیاسی عمل کو سیاسی رہنے دیں، آپ دیکھیں گے کہ جیسے باقی الزامات غلط ثابت ہوئے، یہ بھی غلط ثابت ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھاکہ پاکستان میں ایسا کون سا الیکشن تھا جس میں کسی جماعت یا سیاستدان نے نہ کہا ہو دھاندلی ہورہی ہے، کوئی ایک ایسا الیکشن بتایا جائے جس سے پہلے مختلف جماعتوں کے لوگوں نے پارٹی تبدیل نہ کی ہو، بدقسمتی سے بعض سیاسی جماعتیں دوسری جماعتوں کو نیچا دکھا کر الیکشن لڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے پچھلے سالوں میں ہر قومی فریضہ کامیابی سے انجام دیا ہے، پاک فوج پچھلے 15 سال سے بہت اہم اور بقائے پاکستان کی جنگ لڑرہی ہے، جب آپ دل یا دماغ کی سرجری کررہے ہوں تو چھوٹی بیماریوں کی طرف توجہ نہیں دی جاتی، ان سب چیزوں کا مقصد ہے کہ فوج کی توجہ مین ایشوز سے ہٹائی جائے۔ میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پاک فوج نے جس طرح قربانی دے کر امن قائم کیا اس میں ہم نے وہ چیزیں بھی برداشت کیں جو عام حالات میں نہیں کرتے، ان پر بھی رد عمل نہیں دیا جو نام لے کر کہا گیا، بطور ترجمان افواج پاکستان اس طریقے سے بات نہیں کرسکتا جیسے باہر ہوتی ہے، روزانہ ٹاک شوز ہوتے ہیں، ہر بندے کو اجازت ہوتی ہے کہ جس کا جو دل چاہے وہ کہے جارہا ہے، یہ باتیں کوئی نئی نہیں، یہ وقت ایسا ہے جس میں ہماری توجہ اہم مسائل پر ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ میں فون کرکے کہوں ایسا کردیں تو آپ کردیں گے، بہت سی چیزیں الیکشن مہم کا حصہ ہوتی ہیں جس میں فوج کو ملوث کیا جارہا ہے، ہم یہ سب اس لیے برداشت کررہے ہیں کہ ہمیں پتا ہے ہمیں کہاں جانا ہے، کروڑوں ووٹرز ہیں، کیا اتنے پاکستانیوں کو کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسے ووٹ ڈالیں، عوام جسے چاہیں ووٹ ڈالیں، الیکشن پر فوج سے زیادہ کوئی مطمئن اور خوش نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو لوگ جنرل فیض کا نام لیتے ہیں انہیں ان کے کام کا ہی نہیں پتا، ان کا دہشت گردی کے خلاف بہت کردار ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ملتان واقعے سے متعلق سوال پر اس واقعہ میں پاک فوج کے کسی کردار کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ محکمہ زراعت سے پتا کریں وہ پچھلے ایک سال سے مذکورہ شخص کے خلاف کارروائی کررہے تھے یا نہیں، اسے یہ رنگ دینا کہ الیکشن لڑنے کی وجہ سے ایسا ہوا، غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں، چھوٹے چھوٹے واقعات کو قومی سطح پر نہ لایا جائے۔ جیپ کے نشان سے متعلق سوال کے جواب میں میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ انتخابی نشان افواج پاکستان یا آئی ایس آئی جاری نہیں کرتی، جیپ کو جس کا رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں وہ ہماری نہیں، اس قسم کی زیادہ جیپیں امیداروں کے پاس ہیں اور وہی استعمال کرتے ہیں لہٰذا ہر چیز کو شک کی نظر سے نہ دیکھیں۔

میجر جنرل آصف غفور نے فاٹا میں الیکشن کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فاٹا کا انضمام ہوچکا ہے، وہاں الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ میں بھی درخواستیں گئیں، اب اس معاملے پر جو ریاست کا فیصلہ ہے وہی سب کا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ جو آپ بوئیں گے پورے پانچ سال وہی کاٹیں گے، آپ نے بونا ہے اور آپ نے کاٹنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا بھی اس عمل کو ٹھیک طریقے سے لے کر چلے، میڈیا الیکشن میں شفافیت پر ہم سے زیادہ تعاون کرسکتا ہے۔کیپٹن (ر) محمد صفدر سے متعلق ایک سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ فوج ایک ایسا ادارہ ہے جس کے قواعد بہت سخت ہیں اور اس پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے، کیپٹن (ر) صفدر کو سول کورٹ سے سزا ہوئی، جب ان کا کیس اس اسٹیج پر آئے گا جو آرمی کے قوانین ہیں تو اس کے مطابق ان کے ساتھ کارروائی ہوگی۔

سوشل میڈیا کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم سوشل میڈیا پر کنٹرول نہیں کرسکتے اور نہ چاہتے ہیں، کسی سے ڈنڈے کے زور پر کچھ نہیں کراسکتے، اسے احساس دلانا ضروری ہے، جب کوئی حدود پار ہوگی تب کارروائی کرتے ہیں اور اس حوالے سے ایف آئی اے بہت اچھا کام کررہی ہے، سوشل میڈیا پر جو کام ملک کے خلاف ہوگا وہ نظر انداز نہیں ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر الیکشن کے لیے کوئی پارٹی بنتی ہے تو اس کے قانون کے مطابق رجسٹر ہونے کا عمل ہے، کسی بھی شخص کے الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرتا ہے، اگر اس میں کوئی خلاف ورزی ہو تو کوئی بھی شہری عدالت جاسکتا ہے۔

خلائی مخلوق سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھاکہ ہم سیاست نہیں کرتے، ہم رب کی مخلوق ہیں، پاکسان کے عوام کے لیے اپنی ڈیوٹی کرتے رہیں گے، ہمیں پتا ہے ہم کیسی مخلوق ہیں، پاکستان کے عوام کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے ڈیوٹی پوری کریں گے، اس قسم کے القابات کا کیا اثر ہوسکتا ہے۔