شہباز شریف کے مقتدر اداروں سے ہوئے مبینہ معاہدے کی تفصیلات سامنے آگئیں

شہباز شریف چونکہ مقتدر اداروں سے بھی رابطے میں تھے انہوں نے ریلی کی انتظامیہ سے اجازت حاصل بھی نہیں کی تھی اس لئے انھیں صرف لاہور کی سڑکوں تک محدود رہنے کا مشورہ دیا گیا جو انہوں نے مان لیا، دیگر سینئر لیگی قیادت بھی اس پلان سے بے خبر رہی: میڈیا ذرائع

ہفتہ 14 جولائی 2018 23:41

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ ہفتہ 14 جولائی 2018ء) شہباز شریف کے مقتدر اداروں سے ہوئے مبینہ معاہدے کی تفصیلات سامنے آگئیں، گزشتہ روز شہباز شریف چونکہ مقتدر اداروں سے بھی رابطے میں تھے، انہوں نے ریلی کی انتظامیہ سے اجازت حاصل بھی نہیں کی تھی، اس لئے انھیں صرف لاہور کی سڑکوں تک محدود رہنے کا مشورہ دیا گیا جو انہوں نے مان لیا، دیگر سینئر لیگی قیادت بھی اس پلان سے بے خبر رہی۔

تفصیلات کے مطابق قائد مسلم لیگ ن نواز شریف کی ہدایت پر ان کی پاکستان واپسی پر یہ حکمت عملی تیار کی گئی تھی کہ وہ لاہور ایئر پورٹ پر اتریں گے اور شہباز شریف کی قیادت میں آنے والی ریلی سے خطاب کرنے کے بعد گرفتاری دے دیں گے۔ اس منصوبے کا مقصد ن لیگ کی جانب سے بھرپور عوامی قوت کا مظاہرہ کرنا تھا۔

(جاری ہے)

اس حکمت عملی کے تحت ہی شہباز شریف نماز جمعہ کے بعد لاہور کی سڑکوں پر نکلے جہاں دیگر شہروں سے آنے والے قافلے بھی اکر ملتے رہے، مگر وہ چھ گھنٹوں تک سڑکوں پر ہی رہے اور ایئر پورٹ نہ پہنچے۔

اس دوران شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف سے مسلسل رابطے میں تھے اورانھیں بتا رہے تھے کہ وہ ان کی آمد سے قبل ایئر پورٹ پہنچ جائیں گے۔ مگر جب نواز شریف لاہور پہنچنے ریلی سے متعلق استفسار کیا تو انھیں بتایا گیا کہ ابھی ریلی ایئر پورٹ نہیں پہنچی جس پر نواز شریف مایوس ہوگئے اور انہوں نے جہاز سے نیچے اترنے اور گرفتاری دینے کا فیصلہ کیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف چونکہ مقتدر اداروں سے بھی رابطے میں تھے اور انہوں نے ریلی کی انتطامیہ سے اجازت حاصل بھی نہیں کی تھی، اس لئے انھیں صرف لاہور کی سڑکوں تک محدود رہنے کا مشورہ دیا گیا جو انہوں نے مان لیا۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے اس حکمت عملی میں تبدیلی کا کسی کو نہیں بتایا حتی کہ جو دیگر رہنما جن میں ایاز صادق، سعد رفیق ، شاہد خاقان عباسی ،خواجہ آصف، خرم دستگیر ، جاوید لطیف اور رانا تنویر و غیر ہ شامل تھے، وہ بھی اس پلان میں تبدیلی سے آگاہ نہ تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کارکن تو کارکن کوئی رہنما بھی لاہور سے ایئر پورٹ نہ جا سکا کیونکہ اس کا کنٹرول قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس تھا۔ صرف ایک لیڈر جو ایئرپورٹ پہنچے، وہ مشاہد اللہ خان تھے جو جہاز سے کراچی سے لاہور آئے۔ تاہم انہیں بھی نواز شریف سے ملنے نہیں دیا گیا۔;