لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے بلدیاتی الیکشن کیلئے پنجاب حکومت کی طرف سے کی گئی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا

منگل 4 فروری 2014 07:37

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4فروری۔2013ء)لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے بلدیاتی الیکشن کیلئے پنجاب حکومت کی طرف سے کی گئی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں مسٹر جسٹس محمد فرخ عرفان خان اور مسٹر جسٹس عاطر محمود پر مشتمل تین رکنی فْل بنچ نے91صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے سیکشن 8 اور 9 ،حلقہ بندیوں سے متعلق رولز3تا8 اور پنجاب حکومت کی طرف سے کی گئی حلقہ بندیوں کوو آئین کے آرٹیکل 10اے سے متصادم قرار دے دیا۔

جس کے باعث پنجاب حکومت کی طرف سے کی گئی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دے دی گئیں۔فاضل عدالت نے پنجاب حکومت کو حلقہ بندیوں سے متعلق نئی قانون سازی اور الیکشن کمیشن کو فوری طور پر نئی حلقہ بندیاں کرنے کا حکم دیا ہے۔

(جاری ہے)

فاضل عدالت نے الیکشن کمشن کو حلقہ بندیوں کے حوالے سے از سر نواقدامات کرنے کی ہدایات کرتے ہوئے تفصیلی فیصلہ میں یہ بھی کہا ہے کہ الیکشن کمیشن اس بات کا بھی جائزہ لے کہ ابھی تک مردم شماری نہیں ہوئی اور اس کے بغیر نئی حلقہ بندیاں کیسے ہوں گی۔

فاضل عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ مدعا علیہان اس بات کو یقینی بنائیں کہ بلدیاتی انتحابات کے انعقاد میں تاخیر نہ کی جائے۔ عدالت کے روبرو تحریک انصاف سمیت سینکڑوں دیگر درخواست گزاروں کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ حلقہ بندیوں کا اختیار الیکشن کمشن کے پاس ہے لیکن پنجاب حکومت من پسند علاقوں میں امیدواروں کے لیے حلقہ بندیاں کروا کر دھاندلی کا منصوبہ بنا رہی ہے جبکہ امیدواروں کے پاس حلقہ بندیوں کیخلاف اپیلیں کرنے کے لیے کوئی فورم موجود نہیں ہے کیونکہ لوکل گورنمنٹ کے سیکشن 10 اے کے تحت جب الیکشن کمشن شیڈول جاری کر دے تو امیدوار حلقہ بندیوں کو کہیں بھی چیلنج نہیں کر سکتے۔

سیکشن 10اے کا اضافہ بدنیتی سے کیا گیا۔ 18 ستمبر کو سیکشن 7پنجاب لوکل گورنمنٹ کے تحت ڈی سی اوز کو حلقہ بندی آفیسر اور اے سی کو اسسٹنٹ بنایا گیا۔ اِس کی اپیل کا اختیار متعلقہ کمشنر کو دیا گیا۔ 9 اکتوبر 2013 کو حلقہ بندیوں کے معاملات شروع ہوتے ہیں اور 4 نومبر 2013 کو ختم ہو جاتے ہیں اور یوں ایک ماہ کے کم عرصے میں پنجاب کی حلقہ بندیوں سے بابت فیصلہ کر لیا جاتا ہے۔

فاضل عدالت نے قرار دیا کہ یہ تمام مراحل کتنے عرصے میں مکمل ہوئے اور قانون میں صرف انتظامیہ کو اختیارات دیئے گئے اور اِس وقت پنجاب میں جماعتی بنیادوں پر الیکشن ہو رہے ہیں۔ بادی النظر میں متعلقہ ایم این اے اور ایم پی اے اثر و رسوخ استعمال کرکے اپنی مرضی کی حلقہ بندیاں کروا لیگا۔ 400 سے زائد پٹیشنز دائر ہو چکی ہیں زیادہ میں یہی اعتراض اْٹھایا گیا ہے۔

فاضل عدالت نے حکومت کی اس دلیل کو منظور نہیں کیا کہ حلقہ بندیاں صاف اور شفاف ہوئی ہیں اور امیدواروں کو پورا موقع دیا گیا کہ اعتراضات اْٹھائے جاسکیں۔فاضل عدالت نے اپنی فیصلے میں قرار دیا کہ ہائیکورٹ واقعاتی معاملات نہیں دیکھ سکتی۔ یہ کوئی ریڈ کلف ایوارڈ نہیں کہ ایک لائن کھینچ دی باقی کچھ نہیں کرنا۔ ایک حلقے میں کچھ علاقے ڈال دیں کچھ نکال دیں یوں صاف الیکشن کیسے ہو سکتے ہیں؟ فاضل عدالت نے اس حکومتی دلیل کو بھی مسترد کہ انڈیا کے قوانین میں یہ بات واضح طور پر آچکی ہے کہ حلقہ بندیاں الیکشن کے مراحل میں نہیں آتیں۔

فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پاکستانی قانون سے ہمیں بتائیں اور عدالت کو مطمئن کریں۔ہائیکورٹ کے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اختیارات میں کمی نہیں کی جاسکتی جبکہ 10اے کے تحت حکومت نے اختیارات ختم ہی کر دیئے۔ فاضل عدالت نے مزید کہا کہ حکومت نے قوانین میں کسی جگہ بھی عدالت کے کردار کو واضح نہیں کیا۔اگر کوئی فیصلہ غلط ہوگا تو عدالت میں جانے کا دروازہ تو ہونا چاہیے۔

انتظامیہ نے سارا ہی کام کرنا ہے تو لوگ انصاف کیلئے کہاں جائیں گے۔فاضل عدالت نے حکومت کے اس موقف کو بھی نہیں مانا کہ حکومت آئین کے آرٹیکل 144 کے تحت لاء کمیشن کو لکھ دیتے ہے جو رائے آئے گی وہ دیکھ لیں گے۔مفاضل عدالت نے قرار دیا کہ ہم کسی لاء کمیشن کے مشورے کے پابند نہیں ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف لیا ہے۔ اگر حلقہ بندیاں صاف اور شفاف طریقے سے نہیں کی جائینگی تو الیکشن کیسے شفاف ہونگے۔

عدالت نے درخواست گذاروں کے وکلاء کے اس موقف سے اتفاق کیا کہ الیکشن کمیشن نے بھی جلد بازی میں الیکشن کے انعقاد کا شیڈول جاری کر دیا اور حلقہ بندیوں کی بابت تمام فیصلہ جات مکمل نہیں کر سکے۔ یوں الیکشن کمیشن کا شیڈول 6 نومبر 2013 اور 9 نومبر 2013 آئین سے متصادم ہے۔فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا سیکشن 8 اور 9 آئین و قانون سے متصادم ہے لہذا اِسے عدالت کالعدم قرار دیتی ہے۔

حلقہ بندیوں سے بابت نئی قانون سازی کی جائے اور الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کی بابت اپنا کردار ادا کرے تاکہ جلد از جلد لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکے۔تفصیلی فیصلے میں بنچ کے فاضل ممبر مسٹر جسٹس فرخ عرفان خان نے اضافی نوٹ میں قرار دیا ہے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کی رٹ درخواست میں مختصر فیصلے میں حلقہ بندیوں کو قانونی قرار دیا تھا۔

بعد ازاں ان کو فاضل چیف جسٹس نے لارجر بنچ میں شامل کر دیا۔سینکڑوں درخواستوں کی سماعت کے بعد انہوں نے یہ محسوس کیا کہ ڈویڑن بنچ کے رو برو مختصر دلائل دیئے گئے اور کئی قانونی اور آئینی پہلوؤں کو اجاگر نہیں کیا گیا۔اس لئے لارجر بنچ میں دیئے گیئے دلائل کے بعد وہ اپنے برادر ججز کی طرف سے حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں۔