BanjhPan - Jadeed Dour Ka Eheem Masla - Article No. 2023

BanjhPan - Jadeed Dour Ka Eheem Masla

بانجھ پن جدید دور کا اہم مسئلہ - تحریر نمبر 2023

کم عمر عورتوں میں ماں بننے کے امکانات زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔تیس سال تک کی عمر کی عورتوں میں اس کی شرح تقریباً تیس فیصدی ہوتی ہے لیکن چالیس سال کی عمر کی عورتوں میں یہ شرح گھٹ کر صرف دس فیصدی رہ جاتی ہے

جمعرات 3 دسمبر 2020

بعض شادی شدہ جوڑے اولاد سے محروم رہتے ہیں انہیں اس مضمون کے ذریعے اپنی اس محرومی کے اسباب اور ان کے علاج کے بارے میں مفید معلومات حاصل ہو سکیں گی۔شادی شدہ جوڑوں کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے گھر بھی بچہ پیدا ہو۔بعض جوڑوں کو تو شادی کے بعد جلد ہی کامیابی حاصل ہو جاتی ہے جبکہ بعض دوسرے جوڑوں کو والدین بننے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔
یہ جوڑے اولاد نہ ہونے کے باعث مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور عورتیں ماں بننے کی غرض سے ہر قسم کے گھریلو نسخے اور علاج آزماتی ہیں۔وہ جس طریقے پر عمل کرتی ہیں وہ ہمیشہ ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ لوگ خود اپنا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اپنے دوستوں سے مشورہ کرتے ہیں اور جنسی اختلاط کے طریقوں وغیرہ کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں اور قوت کو بڑھانے والی نام نہاد دیسی دوائیں استعمال کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

وہ پیروں‘فقیروں‘جادو منتر اور گنڈے تعویز وغیرہ کا بھی سہارا لیتے ہیں اور نیم حکیم قسم کے لوگوں سے بھی رجوع کرتے ہیں کہ شاید وہ ان کی کچھ مدد کر سکیں اور وہ صاحب اولاد ہو جائیں۔بالآخر جب انہیں ہر طرف سے ناکامی ہوتی ہے وہ اپنی قسمت پر صابرو شاکر ہو جاتے ہیں۔وہ خود اپنے خول میں گم ہو جاتے ہیں اور ایک ہی چھت کے نیچے بالکل اجنبیوں کی طرح زندگی گزارنے لگتے ہیں۔

بانجھ پن ایک ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا آغاز صرف شادی کے بعد سے ہی ہوتا ہے۔اس کے اسباب مختلف ہوتے ہیں اور اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ اچھی صحت کئی سال تک صحت بخش اور اچھے کھانے کھانے اور صحت مند حالات میں زندگی گزارنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔بعض عوامل تو انسان کے اپنے اختیار میں ہوتے ہیں لیکن بعض دیگر عوامل کو زیادہ توجہ کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
چند سال پہلے تک اس بات کو ایک شادی شدہ عورت کافرض اور ذمہ داری سمجھا جاتا تھا کہ وہ بچے پیدا کرے۔عورت ہونے کا مطلب تھا ماں ہونا۔جو عورتیں ماں نہیں بن پاتی ہیں انہیں بنجر‘خالی اور بے کار قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا تھا۔لیکن نئی تحقیقات کے ساتھ ساتھ بانجھ پن کے اسباب کے سلسلے میں نئی نئی معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔مرد پر مکمل انسان ہونے کا طلسم کافی عرصہ ہوا ٹوٹ چکا ہے۔
بانجھ پن کے تمام واقعات میں ایک تہائی واقعات ایسے ہوتے ہیں جو مردوں کے بانجھ پن کے باعث وجود میں آتے ہیں۔ایک تہائی واقعات عورتوں میں موجود مسائل کے باعث پیش آتے ہیں اور ایک تہائی ایسے ہوتے ہیں جن کے اسباب کا کوئی پتہ نہیں چل پاتا۔
ہر تین میں سے ایک مرد کسی نہ کسی ایسے مسئلے کا شکار ہوتا ہے جو ذیلی بانجھ پن کا سبب بنتا ہے۔مرد جہاں ایک طرف روایتی خطروں کے باعث اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں جیسے بہت زیادہ تیز ڈرائیونگ کرنا‘یا زیادہ شراب نوشی کرنا یا غلط سلط قسم کے کھانے کھانا‘وہیں وہ پانی صحت کو نظر انداز کرکے بھی اپنی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
اپنے آپ کو مضبوط اور توانا ظاہر کرنے کی خواہش میں وہ بیماری کی ابتدائی علامتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ڈاکٹروں کی اس کوشش کے باوجود کہ مرد جذباتی طور پر کھل کر گفتگو کریں اور اس وقت مدد طلب کرتے ہیں ہچکچاہٹ سے کام نہ لیں جبکہ ان کی مدد کی ضرورت ہو۔ڈاکٹروں کو کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی ہے۔پینتیس سال کی عمر کے بعد حیاتیاتی تبدیلیوں کا عمل مردوں کے لئے بھی ایسا ہی مسئلہ بن سکتا ہے جیسا کہ وہ عورتوں کے لئے ہے۔

پینتیس سال کی عمر کے مردوں کے تولیدی مادے (Sperm) کی کوالٹی میں انحطاط کا عمل شروع ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہونے لگتی ہے۔زیادہ عمر کے مردوں کے تولیدی مادے میں جینیاتی ٹوٹ پھوٹ کی بلند تر سطح پائی جاتی ہے۔ نیز ڈی این اے کی لڑیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔تمباکو نوشی اور شراب نوشی بھی تولیدی مادے کی کوالٹی کو متاثر کرتی ہے۔
فوطوں کو قدرت نے اس طرح بنایا ہے کہ وہ جسم سے باہر ہوتے ہیں‘کیونکہ تولیدی مادے کی تشکیل کے لئے ایسے درجہ حرارت کی ضرورت ہے جو جسم کے درجہ حرارت سے کم ہو۔چنانچہ ان مردوں میں جو ایسے کارخانوں اور فیکٹریوں وغیرہ میں کام کرتے ہیں جہاں گرمی بہت زیادہ ہو مثلاً بھٹیوں کے قریب اسپرم کاوٴنٹ (Sperm Count) کم ہو گا یا ان کا اسپرم معمول سے مختلف ہو گا۔
پیشہ ورانہ دشواریوں کے علاوہ جس ہوا میں ہم سانس لیتے ہیں اس میں موجود آلودگی پیدا کرنے والے کئی عناصر بھی نقصان دہ اثرات مرتب کرتے ہیں۔بچپن کی بہت سی بیماریاں مثلاً Mumps فوطوں کو مستقل نقصان پہنچاتی ہیں۔
مردوں میں بانجھ پن کے اسباب
کوئی بھی حالیہ بیماری
میڈیکل ہسٹری
Mumps ‘یعنی گلے کے غدود کی بیماری‘جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں
سرجیکل ہسٹری
فوطوں کا آپریشن‘ہرنیا کا آپریشن
پیشہ
بہت زیادہ گرمی میں یا زہریلی فضا میں رہ کر کام کرنا
دوائیں (کیمو تھیراپی)
تمباکو نوشی‘شراب نوشی
عورتوں کے ذیلی بانجھ پن میں عمر کے عنصر کو بہت دخل ہے۔
بڑھتی ہوئی عمر عورتوں میں بار آوری کے امکانات کو کم کر دیتی ہے۔نیز کامیاب علاج کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔ایک نسبتاً کم عمر عورت میں بھی Ovarian reserve کے کم ہو جانے کے باعث قدرتی بار آوری میں کمی واقع ہو جائے گی۔
حمل کے سلسلے میں قدرتی نتائج کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔شادی کے ایک سال کے اندر اندر نوے فیصدی عورتوں کو حاملہ ہو جانا چاہئے۔
دو سال کی مدت کے بعد یہ شرح پچانوے فیصد ہو جاتی ہے۔اس مدت کے دوران بار آوری کے لئے کوئی علاج نہیں کروانا چاہئے۔کیونکہ حمل میں تاخیر محض اتفاقیہ ہوتی ہے۔ایسے جوڑوں میں بار آوری نارمل سے کم ہوتی ہے لیکن وہ بانجھ نہیں ہوتے۔چنانچہ ایسے پانچ سے دس فیصدی جوڑے حمل میں تاخیر کے باعث طبی مشورے حاصل کرتے ہیں۔
اس قسم کے جوڑوں کا بلا تاخیر میڈیکل انویسٹی گیشن کیا جانا چاہئے اور انہیں جلد ہی ماہرین کے حوالے کر دیا جانا چاہئے۔
یہ بات اہم ہے کہ انویسٹی گیشن کرتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ پندرہ فیصد جوڑوں میں بانجھ پن کے بہت سارے اسباب ہوتے ہیں ۔دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ شروع میں ہی مکمل انویسٹی گیشن کروا لیا جائے اور اس کے بعد ہی اگر ضروری ہو تو علاج شروع کیا جائے۔ اگر عورت کی عمر پینتیس سال سے زیادہ کی ہے تو پھر بار آوری کے لئے کئے جانے والے علاج کی کامیابی کے امکانات کافی کم ہو جاتے ہیں۔
چونکہ آئی وی ایف علاج شروع کرنے سے پہلے ضروری انویسٹی گیشن کرنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ اگر بیوی کی عمر پینتیس سال سے زیادہ کی ہو جائے اور ایک سال گزرنے کے باجوود ماں بننے کے آثار نہ ہوں تو اس جوڑے کو فوراً ماہرین کے حوالے کر دینا چاہئے۔
پینتیس سال کی عمر کی ایک عورت کے لئے جس کے شوہر کی عمر اس سے بھی زیادہ ہو‘ماں بننے کے امکانات بیس فیصدی ہوتے ہیں۔
اس صور تحال کا مقابلہ اس عورت سے کیجئے جس کی عمر انیس سے چھبیس سال کے درمیان ہے۔اس کے ماں بننے کے امکانات پچاس فیصدی ہوتے ہیں۔اولاد نہ ہونے کی صورت میں جلد ہی کسی ماہر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔اس امر پر خاص توجہ دینی چاہئے کہ ضرورت مند کی رسائی صحیح ماہر تک ہو۔صحیح ماہر کی تلاش اس مہم کا پہلا اہم حصہ ہے۔اس سلسلے میں قابل اعتماد ذرائع سے مشورہ کرنا چاہئے۔
بہت سے مریض متعدد سوالات پوچھتے ہیں اور ماہر ڈاکٹروں کو ان کے سوالات کے جوابات دینے چاہئیں۔برطانیہ کے ایک ادارے نے ایسے کئی سوالات کی ایک فہرست جاری کی ہے جو اس سلسلے میں لوگ ماہر ڈاکٹروں سے پوچھتے ہیں۔ماہر ڈاکٹروں سے جلدرجوع کرنے کی ضرورت کی علامات۔
اگر تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اولاد نہ ہوتی ہو۔
بیوی کی عمر اڑتیس سال سے زیادہ ہو چکی ہو۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مقرر کردہ معیار کے لحاظ سے اسپرم کاؤنٹ کم اور معمول سے ہٹا ہوا ہو۔میاں بیوی جب ماہر ڈاکٹرکے کلینک میں پہنچ جائیں گے تو ان سے ان کی تفصیلی میڈیکل ہسٹری پوچھی جائے گی۔اگر پہلے کوئی علاج کیا گیا ہے اور کوئی ٹیسٹ وغیرہ ہوئے ہیں تو ان کی ساری تفصیل دریافت کی جائے گی اور اس کا توجہ کے ساتھ تجزیہ کیا جائے گا۔
مزید تفتیش کے عمل کے آغاز سے پہلے عورت کا مکمل طور پر جسمانی معائنہ کیا جائے گا اور اس کی جسمانی حالت کا اچھی طرح جائزہ لیا جائے گا۔عام طور سے مرد کا تفصیلی معائنہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی جب تک کہ معمول سے ہٹ کر کوئی بات اس کی میڈیکل ہسٹری میں نہ موجود ہو یا مادہ منویہ کے تجزئیے میں معمول سے ہٹ کر کوئی بات نظر نہ آتی ہو۔بیشترین جوڑوں میں ابتدائی ہسٹری اور معائنے سے بانجھ پن کی کسی وجہ کا علم نہیں ہو پاتا۔
اور تفصیلی تفتیش کی ضرورت ہوتی ہے۔بہتر یہ ہو گا کہ پہلے ہی مرحلے میں تفصیلی اور مکمل انویسٹی گیشن کروا لیا جائے۔جزوی اور نامکمل انویسٹی گیشن سے اصل صورت حال کا علم نہیں ہو سکے گا اور بانجھ پن کے حقیقی اسباب معلوم نہیں ہو سکیں گے۔جوڑوں کا عمومی انویسٹی گیشن بھی کیا جائے گا اور خصوصی انویسٹی گیشن بھی ۔جیسا کہ پہلے بتایا گیا۔پندرہ فیصدی جوڑوں میں بانجھ پن کے ایک سے زیادہ اسباب موجود ہوں گے۔
مردوں کے سلسلے میں مادہ منویہ کا معائنہ بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور مادہ منویہ کا معائنہ عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ہونا چاہئے۔صرف ایک بار کے معائنے کے بعد اگر نتیجہ خراب برآمد ہو تو پھر دو تین ماہ کے وقفے کے بعد ایک بار پھر معائنہ کروانا ضروری ہو گا۔مادہ منویہ کی مقدار عام طور سے 2.5 ملی لیٹر ہونی چاہئے۔اسپرم کاؤنٹ 20 ملین فی ملی لیٹر ہونا چاہئے جن میں سے پچاس فیصدی سے زیادہ محرک ہوں‘اور پندرہ فیصدی سے زیادہ نارمل ہونے چاہئیں۔
عورت کے لئے زیادہ تفصیلی انویسٹی گیشن کی ضرورت ہو گی۔جس کے بعد علاج کے متعدد طریقوں کا احتیاط کے ساتھ جائزہ لینا ہو گا۔اس موقع پر جوڑے کو مشاورت کی بھی ضرورت ہو گی۔
دروں رحمی تخم ریزی
اس صورت میں ایک قدرتی ماہواری اور دور (Cycle) میں حمل کے امکانات تینتیس فیصدی سے کم ہوں گے۔بانجھ پن کے علاج میں کامیابی کم ہو گی۔
اس کی وجہ سے غصہ‘مایوسی اور دکھ جنم لیتے ہیں۔یہ ضروری ہے کہ اس موقع پر جوڑے کو سہارا دیا جائے۔علاج کے بار بار دہرائے جانے سے حمل کے امکانات بہتر ہوتے ہیں۔بار آوری (Fertility) کے کلینک میں جانے والی کم از کم بیس فیصدی عورتیں Ovulation کے مسئلے سے دوچار ہوں گی۔Ovulation کو بہتر بنانے کے لئے ہارمون تھراپی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔دروں رحمی تخم ریزی یا Intrauterine Insemination (آئی یو آئی) کے طریقے کو بہت سے اہم مسائل پر قابو پانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے مثلاً مردوں میں سرعت انزال‘جنسی کمزوری یا جسمانی نقائص وغیرہ۔
اس طریقے کی مدد سے مرد کے مادہ منویہ کو براہ راست عورت کے رحم میں داخل کر دیا جاتا ہے۔حمل کے امکانات کو بڑھانے کی غرض سے عورت کو بار آوری کی دوائیں دی جاتی ہیں تاکہ کم از کم ایک انڈا تو بن ہی سکے اور Ovulation کے وقوع پذیر ہونے کو یقینی بنایا جا سکے۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسپرم اور انڈے کے لئے Fallopian tube میں ملنا دشوار یا ناممکن ہوتا ہے اور جسم میں بار آوری کا نارمل عمل وقوع پذیر نہیں ہو سکتا۔
In Vitro Fertilisation (آئی وی ایف) ایک ایسا طریقہ ہے جس کی مدد سے اس قسم کے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔اس طریقے کے ذریعے بار آوری (Fertilisation) کا عمل جسم کے باہر شیشے کی ایک ڈش میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔لاطینی زبان کے لفظ Invirto کا مطلب ہے ”شیشے میں“ اس لئے اس عمل کو یہ نام دیا گیا ہے۔اس طریقے میں عورت کے جسم سے بہت سے انڈے حاصل کئے جاتے ہیں اور انہیں مرد کے تولیدی مادے کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔
بار آوری کا عمل کلچر ڈش میں نمو پاتا ہے۔
طویل بانجھ پن
اعلیٰ درجے کے اسپیشلائزڈ کلینکوں میں جہاں بانجھ پن کا علاج کیا جاتا ہے‘حمل کے امکانات کو بڑھانے کے لئے اور بھی بہت سے جدید طریقے استعمال کئے جاتے ہیں اس امر کا انحصار بہت سارے عوامل پر ہوتا ہے کہ ایک عورت ایک زندہ بچے کو جنم دے۔اس میں عورت کی عمر کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔
کم عمر عورتوں میں ماں بننے کے امکانات زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔تیس سال تک کی عمر کی عورتوں میں اس کی شرح تقریباً تیس فیصدی ہوتی ہے لیکن چالیس سال کی عمر کی عورتوں میں یہ شرح گھٹ کر صرف دس فیصدی رہ جاتی ہے۔ان عورتوں میں جو پہلے بھی ماں بن چکی ہیں یا جو پہلے آئی وی ایف کے استعمال کے ذریعے بچہ پیدا کر چکی ہیں‘آئی وی ایف کے علاج کے ذریعے ماں بننے کے زیادہ امکانات پائے جاتے ہیں۔طویل بانجھ پن کی صورت میں زندہ بچوں کی پیدائش کی شرح کم ہے۔خواہ عورت کی عمر کچھ بھی ہو۔

Browse More Banjh Pan