Nashta Buhat Zaroori Hai - Article No. 1683

Nashta Buhat Zaroori Hai

ناشتا بہت ضروری ہے - تحریر نمبر 1683

صبح کا قلیل ناشتا تمام دن کی سستی وکمزوری کا باعث ہو جاتا ہے۔

جمعرات 26 ستمبر 2019

پروفیسر ڈاکٹر سید اسلم
یہ عام منظر ہے کہ دفتر آنے کے بعد اکثر افراد کچھ ساعت بعد تھکن اور کمزوری محسوس کرتے ہیں،کیونکہ اس وقت تک ان کی شکر خون(خون میں شکر کی سطح)کم ہونا شروع ہو جاتی ہے،جس کا مداوااُن کے ذہن میں ہوتاہے،جسے وہ ہر روز آزماتے ہیں۔ان کا ہاتھ گھنٹی کی طرف بڑھتا ہے،جسے سننے کے لیے پہلے ہی سے پیش خدمت(چپراسی)گوش برآواز ہوتا ہے اور فوراً ہی چائے کی پیالی ان کے سامنے آجاتی ہے۔
قند آمیز چائے پینے سے شکر کون بڑھنے سے ایک دوساعت کے لیے طبیعت بحال ہو جاتی ہے،مگر پھر کچھ دیر بعد طبیعت دوبارہ گرنے لگتی ہے کہ اب شکر خون پھر کمی کی طرف مائل ہے۔چائے کی مکررطلب ہوتی ہے،جو انھیں بلاکسی تاخیر کے مل جاتی ہے اوریہ سلسلہ کسی کی زلف دراز کی طرح چلتا رہتاہے۔

(جاری ہے)


اگر اس وقت کوئی ملاقاتی آجائے تو وہ خود بھی چائے پیتے ہیں اور اس کو بھی ضرور پلاتے ہیں،گو اس تکلف میز بانی میں مہمان کی خاطر سے زیادہ چائے پینے کی اپنی خواہش زیادہ شدید ہوتی ہے۔

کارخانوں اور دیگر اداروں میں کام کرنے والوں کا بھی یہی حال ہے۔یہ وہ افراد ہیں، جو صبح کو عجلت میں اچھی طرح ناشتا کرکے نہیں آئے ہیں، صرف”چائے“کی پیالی اور توس یا پاپا“کھا کر چل پڑے ہیں ،جس کا اظہار وہ بڑے فخر سے کرتے ہیں کہ”ہم نے تو ناشتے میں کچھ نہیں کھایا ہے۔“صبح کا قلیل ناشتا تمام دن کی سستی وکمزوری کا باعث ہو جاتا ہے۔
اسی طرح خواتین خانہ بھی صحیح طرح ناشتا نہ کرنے کے باعث میٹھی چائے پینے کے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہیں ،تاکہ شکر خون میں اضافے سے پژمردہ جسم میں زندگی کی رمق پیدا ہو۔ناشتانہ کرناتو بُراہے ،لیکن ناشتے کے بجائے سیاہ کافی یا چائے پینا اور بھی بُرا ہے، اس لیے کہ اس طرح ذہنی وجسمانی صلاحیت مزید متاثر ہوتی ہے۔
چائے،کافی،تمباکو پینے اور غالباً شراب نوشی کا تعلق زیادہ تر ہماری شکر خون کی سطح سے ہے۔
غلط غذا کے نتیجے میں شکر خون میں نشیب وفراز آتے ہیں اور ہر نشیب کے ساتھ طبیعت گرتی ہے،جس کی اصلاح کے لیے چائے یا کافی کی خواہش یا سگرٹ کے کش لگانے کو جی چاہتا ہے۔یہ مناظر اوقات کار کے دوران ہمارے ہر دفتر اور کارخانے میں عام ہیں۔ شراب خوری کی تحریک میں بھی شکر خون میں کمی مہمیز بن سکتی ہے ۔تمباکو،چائے،کافی یا شراب پینے سے گردے کے اوپر کے غدود(ADRENAL GLANDS)کی افزایش میں اضافہ ہوتاہے،عارضی طور پر شکر کی سطح بڑھ جاتی ہے اور طبیعت بحال ہو جاتی ہے،لیکن اس اضافہ شکر کے تعاقب میں انسولین بھی فوری طور پر پیدا ہوتی ہے،جس کے زیر اثر شکر خون پھر کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور اضمحلال کی کیفیت دوبارہ طاری ہو جاتی ہے۔

جسم کی ساخت جن خلیات(سیلز)سے ہوتی ہے،وہ اپنی ضروری غذا شکر سے حاصل کرتے ہیں،چکنائی اورلحمیات (پروٹینز)سے نہیں۔جسم میں مناسب توانائی ،قوت عمل کے اظہار اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے لیے جسم میں مناسب مقدار میں شکر کی سطح کا بر قرارر ہنا ضروری ہے۔جسم میں مقدار شکر کا اندازہ شکر خون کی پیمایش سے ہو سکتا ہے ۔نہار منھ(یعنی12ساعت تک کچھ نہ کھانے پینے کے بعد)شکر خون80سے120ملی گرام فیصد ہونی چاہیے۔
اس شکر خون کا انحصار اُس غذا کی مقدار ومعیار پر بھی ہے،جورات کو کھائی ہے۔جب شکر خون 70ملی گرام ہوتو بھوک لگتی ہے۔اگر اس وقت کھانے کو کچھ نہ ملے تو تھکن اور کمزوری محسوس ہونے لگتی ہے ۔اگر شکر خون 65ملی گرام ہوجائے تو میٹھاکھانے کی سخت خواہش ہوتی ہے اور آنتوں میں بے چینی ہوتی ہے۔آپ تمام دن کس طرح محسوس کرتے ہیں، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ مقررہ اوقات طعام میں کیا کھا رہے ہیں،خصوصاً آپ کس قسم کا ناشتا کررہے ہیں۔
علی الصباح جب آدمی گزشتہ 12سے 14ساعت سے بھوکا ہے تو اس کے جسم کو ایندھن(غذا)کی جس قدر ضرورت ہوتی ہے،اس قدر کسی اور وقت نہیں ۔معدہ اس وقت اس غذا کو بہ خوبی ہضم بھی کر سکتاہے۔
غذائی فتور کے سبب سے جب شکر خون کم ہوجائے اور پھر مسلسل کم رہے تو تھکاوٹ بڑھ کر نڈھال پن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اس وقت سر کا درد،نقاہت ،چلنے میں لغزش ،دل کی دھڑکن میں تیزی اور متلی ہوتی ہے۔
بعض اوقات اُلٹی ہوتی ہے اور کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رہتی۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے،بلکہ مخبوط الحواسی طاری ہو سکتی ہے۔ایسا فرد اعصابی لحاظ سے بدحواس ہو سکتا ہے۔خبط الحواسی اور خالی الذہنی سے فکری الجھنیں اور ژولیدہ خیال ہی نہیں ہوتی،بلکہ سڑکوں کے حادثات بھی کثرت سے ہوتے ہیں۔کم شکر خون کے ساتھ موٹر گاڑیاں چلانے والوں میں حادثات کا اسی قدر امکان ہوتا ہے،جس قدر شراب سے مد ہوش گاڑیاں چلانے والوں میں ،کیوں کہ ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ان دونوں کا ردعمل فوری نہیں ہوتا۔

بالکل معمولی اور بہت ہلکے ناشتے کے ڈیڑھ ساعت بعد اکثر دفاتر میں کام کرنے والوں اور ان کے ملاقاتیوں پر بد مزاجی کی کیفیت طاری ہو سکتی ہے،جس کا انجام باہمی بدکلامی پر ہو سکتاہے۔”صبح گیارہ بجے سر کا درد“تمام ترقی یافتہ دنیا میں ایک جانی پہچانی شکایت ہے،جو شکر خون میں کمی کی وجہ سے ہوتاہے۔شکر خون میں کمی سے بیزاری ،اعصابی دباؤ،اضطراب ،افسردگی اور اختلاج قلب واقع ہو سکتے ہیں ۔
اس کاا زدواجی شکر رنجیوں سے بھی براہ راست تعلق ہے۔مزاج میں تلخی وتشدد سے طلاقوں کی شرح میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔اسی طرح باہمی آویزشیں،فسادات،قتل وغارت اور خود کشی کی وارداتیں ہونا بھی بعید نہیں۔تشددکا غلبہ اس قدر قوی ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ مجنونا نہ حرکتیں کر سکتے ہیں۔مرنے مارنے پر تیارہو جاتے ہیں ۔صرف ذرا چھیڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
فاقہ کشی کی کیفیت میں بد مزاجی کا منظر عام ہے۔
یہ ابھی تک پر اسرار راز ہے کہ حملہ قلب زیادہ تر صبح اُٹھنے کے چند ساعتوں کے اندر اندر کیوں ہوتے ہیں؟کیا اس کی وجہ نا شتا نہ کرنا ہے؟جو لوگ ناشتا نہیں کرتے،ان کی رگوں میں سدے بہ آسانی بن جاتے ہیں،جو آخر کا رحملہ قلب اور فالج کا امکان پیدا کرتے ہیں ۔یہ بات معلوم ہے کہ خون کی تشتریوں (PLATELETS)میں چپکنے کی خاصیت صبح سویرے اُٹھنے کے ساتھ بہت زیادہ ہو جاتی ہے،مگر کھانا کھانے کے بعد بہ وجوہ اس میں کمی آجاتی ہے۔

ناشتا نہ کرنے والوں یا زیادہ عرصے بھوکے رہنے والوں میں پتے کے سنگ ریزے ساخت ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔بڑے کارخانوں میں اکثر حادثات ناشتا نہ کرنے والوں میں یا دوپہر کے کھانے سے قبل ہوتے ہیں ۔خلیات جسم کو شکر کی رسد ذرا بھی کم ہو جائے تو عفونتیں(خصوصاً وائرس)بہ آسانی شکار کر لیتی ہیں۔بار بار نزلے زکام میں مبتلا رہنے والے اگر اپنی غذائی عادات کی طرف توجہ دیں تو ان تکالیف کی اصلاح ہو سکتی ہے۔اچھی طرح ناشتا نہ کرنا پوری قوم میں قلت غذائیت کا بھی سبب ہے۔

Browse More Breakfast