Breast Cancer Se Aaghi - Article No. 1729

Breast Cancer Se Aaghi

بریسٹ کینسر سے آگاہی - تحریر نمبر 1729

پاکستان میں بریسٹ کینسر کے متعلق شعور کی کمی کے سبب پہلی سٹیج پر تشخیص صرف (4%)فیصد سے بھی کم ہے اور ہر 9میں سے 1خاتون کو بریسٹ کینسر کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے

جمعہ 15 نومبر 2019

دنیا میں جدت آنے کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے پھیلنے میں بھی کثیر تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔بیسویں صدی میں دنیا میں کینسر ایک مہلک ترین بیماری بن کر سامنے آیا ہے اور اب تک لاکھوں قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بن چکا ہے ۔کینسر کی مہلک ترین اقسام میں سے بریسٹ کینسر بھی ایک مہلک ترین بیماری ہے۔ہم سب ہی اس کینسر کے بارے میں سنتے اور پڑھتے آئے ہیں،لیکن آج بھی زیادہ تر افراد بریسٹ کینسر کے موضوع پر بات تک کرنا معیوب خیال کرتے ہیں۔
بیشتر افراد بریسٹ کینسر سے آگاہی کے متعلق اشتہار اوراس سے جڑی خبریں نظر انداز کر دیتے ہیں اور نہ اس موضوع پر کوئی بات سننا چاہتے ہیں اور نہ ہی کوئی بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ انڈین کونسل آف میڈیکل ر یسرچ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا میں15سے 20خواتین بریسٹ کینسر کا شکار ہوتی ہیں،اسی طرح ایک اور تحقیق کے مطابق پاکستان میں بریسٹ کینسر کے متعلق شعور کی کمی کے سبب پہلی سٹیج پر تشخیص صرف (4%)فیصد سے بھی کم ہے اور ہر 9میں سے 1خاتون کو بریسٹ کینسر کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)


عورتوں کو ہونے والے کینسر میں سے بریسٹ کینسر اول درجہ پر ہے ۔اول یہ مرض زیادہ تر 45برس سے 60برس کی خواتین میں پایا جاتا تھا لیکن اب نو عمر خواتین میں بھی یہ مرض ایک بڑی تعداد میں رپورٹ ہوا ہے۔بریسٹ کینسر کا مرض ترقی پزیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یاقتہ ممالک میں بھی بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے ۔بریسٹ کینسر کا مرض بنیادی طور پر ڈکٹس اور لوبز کے ٹشوز میں بے ہنگم نشونما سے پیدا ہوتا ہے ۔
ابنارمل نشونما کی وجہ سے بریسٹ پر گلٹی یا لمپ کی علامت ظاہر ہوتی ہے۔چھاتی کے علاوہ اگر بغل میں بھی ایسی علامات ظاہر ہوتوتب بھی بریسٹ کینسر کاخطرہ موجود ہو سکتا ہے۔
بریسٹ کینسر کی بیماری ایک ہیر یڈیٹری ہے،یعنی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو سکتی ہے۔بریسٹ کینسر کی بیماری کے بنیادی طور پر چار مراحل ہیں۔پہلے دو مراحل تو بڑی حد تک قابلِ علاج ہیں ،لیکن تیسرے اور چوتھے مراحل میں بیماری تقریباَ لا علاج ہو جاتی ہے ۔
بریسٹ کینسر کے پہلے مرحلے میں چھاتی میں چھوٹی سی گلٹی پیدا ہوتی ہے اور اس دوران کبھی کبھار درد کا معمولی احساس بھی ہوتا ہے۔پہلی سٹیج یہ تعین کرتی ہے کہ اب کینسر نے بافتوں کو آزادنہ نقصان پہنچانا شروع کر دیا ہے ۔مناسب علاج نہ ہونے پر یہ گلٹی بڑھتی چلی جاتی ہے اور بیماری کا دوسرا مرحلہ شروع جاتا ہے اور یہ گلٹی جڑیں پھیلاتی ہوئی پھیلنا شروع کرتی ہے، اور لِمف نوڈز میں داخل ہوجا تی ہے۔
دوسرے مرحلے پر اس گلٹی کا سائز اخروٹ یا لیموں جتنا ہو جاتا ہے۔دوسرے مرحلے میں بھی کافی حد تک سرجری کے بغیر بھی یہ بیماری قابل علاج ہوتی ہے۔تیسرے مرحلے میں میں اب کینسر نولِمف نوڈز میں داخل ہو چکا ہوتا ہے جو گردن کی ہڈی اور بغل تک مزید بھی پھیل سکتا ہے،اور یہ برونی جلد کے قریب بھی پہنچ جاتا ہے۔اس مرحلے میں جسم سے خون کا رساؤ بھی شروع ہو جاتا ہے۔
چوتھے اور آخری مرحلے میں کینسر لِمف نوڈز سے نکل کرچھاتی کے دیگر حصوں تک بھی پھیل جاتا ہے اور یہ رفتہ رفتہ ہڈیوں پھیپھڑوں ،جگر اور دماغ تک پھیل جاتا ہے۔اس سٹیج پر پہنچنے والے 99فیصد مریضوں کو ڈاکٹر لا علاج قرار دیتے ہیں اور انجام جان کاضیاع ہوتا ہے۔
بریسٹ کینسر کی تشخص کے لیے میموگرافی کا استعمال کیا جاتا ہے ۔میموری گرافی کے اندر مخصوص ایکسرے کی مدد سے ان گلٹیوں کی تشخیص کی جاتی ہے اور اس طرح اس کی تشخیص سے اسے مزید پھیلنے سے بھی روکا جاسکتا ہے۔
علاج کے لیے بریسٹ کینسر کے مریضوں علاج کے لیے سرجری ،کیموتھراپی،ریڈیو تھراپی اور ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی کی ضرورت پڑتی ہے۔ بیماری کے تیسرے اور چوتھے سٹیج پر توعلاج کی غرض سے کیموتھراپی کے عمل میں چھاتی کے متاثرہ حصے کوجسم سے الگ کر دیا جاتا ہے۔یہ عمل وقتی طور پر تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ طویل مدتی طور پر بھی ،نسوانی ،دماغی اور خانگی طور پر بے شمار مسائل کا سبب بنتا ہے۔

خواتین کے لیے بریسٹ کینسر سے بچنے کے لیے موثر ترین طریقہ باقاعدہ سکریننگ ہے۔پاکستان میں متعدد صحت مراکز میں اس مرض کی مفت تشخیص کی جاتی ہے۔40سے 50سال کی خواتین کو سالانہ بنیادوں پر اس مرض کی تشخیص کروانی چاہیے ۔ماہرین کے نزدیک بریسٹ کینسر کی ایک بڑی وجہ متوازن غذا کی کمی ،ڈپریشن اور تنہائی ہے۔ڈاکٹرز کے مطابق بریسٹ کینسر سے بچنے کے لیے اپنے شیر خوار بچوں کو ڈبے والے دودھ کی جگہ اپنا دودھ پلانا بھی اس بیماری سے بچنے میں کافی مددگار ہو سکتا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں ماہِ اکتوبربریسٹ کینسر کی آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے اور پوری دنیا میں 20نومبر مشترکہ طور پر پنک ڈے کے نام سے اس دن بریسٹ کینسر کے متعلق آگاہی مہم چلائی جاتی ہے۔
بریسٹ کینسر کا علاج ایک تکلیف دہ اور مہنگا ترین عمل ہے اور اس کے علاج کے دوران متاثرہ مریض اور اس کے لواحقین کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس سال ایسے مریضوں کی مدد کے لیے یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور ڈیرہ غازیخان کیمپس میں انگلش ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام فنڈ ریزنگ کا آغاز کردیا گیا ہے مریضوں کی مدد کے لیے اس ضمن میں عوام الناس اور مخیر حضرات بھی تعاون فرما سکتے ہیں ۔آئیں ہم سب مل کر اس بیماری کا جڑ سے خاتمہ کر دیں اور آگاہی کے ذریعے اس مہلک بیماری سے اپنے معاشرے کو پاک کردیں وگرنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بیماری کا اگلا ہدف ہماری ماں،بہن یا بیٹی ہو۔

Browse More Cancer