Sartan Qabil E Ilaj Marz - Article No. 2452

Sartan Qabil E Ilaj Marz

سرطان ۔ قابلِ علاج مرض - تحریر نمبر 2452

سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنے،ہنسی خوشی رہنے،متوازن غذا کھانے اور اللہ پر مکمل بھروسا کرنے سے سرطان سے محفوظ رہا جا سکتا ہے

پیر 30 مئی 2022

عمران سجاد
اگر سرطان جسم میں زیادہ نہیں پھیلا تو یہ 80 فیصد قابلِ علاج ہوتا ہے۔کئی سرطان تو 90 فیصد تک قابلِ علاج ہوتے ہیں۔کسی بھی بیماری میں یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ وہ کس مرحلے میں ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں لوگوں میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے اور ان کی طبی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔وہ سال یا چھے مہینے میں اپنا چیک اپ تک نہیں کراتے،تاکہ اگر ان کے جسم میں کوئی بیماری پل رہی ہے تو اس کی بروقت تشخیص اور علاج ہو سکے۔
لوگ اس وقت ہسپتال کا رُخ کرتے ہیں،جب بیماری آخری مرحلے میں پہنچ جاتی ہے اور مرض ناقابلِ علاج ہو جاتا ہے۔سرطان بہت تیزی سے پھیلنے والا مرض ہے۔اگر اس کی تشخیص بروقت کر لی جائے تو علاج ممکن ہو جاتا ہے۔
سرطان دوسرے امراض سے بہت مختلف اور پیچیدہ مرض ہے۔

(جاری ہے)

یہ دراصل انسانی خلیات کے ڈی این اے (DNA) میں ہونے والی خلاف معمول تبدیلیوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔

سرطان دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔اس کے مریض کو پوری زندگی ادویہ کھانی پڑتی ہیں۔سرطان کی اکثر ادویہ سرطانی رسولیوں کو ختم کرنے والی ہوتی ہیں۔یہ ادویہ انتہائی مہنگی ہوتی ہیں۔مریض پر ادویہ اپنے اثرات مرتب کرنے لگتی ہیں،لیکن سرطانی خلیات بہت متحرک ہوتے ہیں،وہ آسانی سے ختم نہیں ہوتے۔پھر جب ادویہ کے اثرات ختم ہو جاتے ہیں تو سرطان جسم میں پھیلنے لگتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ سرطان میں مبتلا ہونے کا مطلب موت ہے۔جس مریض کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ سرطان میں مبتلا ہو چکا ہے،وہ موت کو اپنے بہت قریب محسوس کرنے لگتا ہے۔مریض پر نفسیاتی دباؤ بھی ہوتا ہے۔اس کے لئے سرطان خوف اور دہشت کی علامت بن جاتا ہے۔آج کل ایسی ادویہ بھی بنا لی گئی ہیں،جن کے کھانے سے سرطان ایک مزمن بیماری کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
اس طرح مریض کی زندگی کو طویل عرصے تک کھینچا جا سکتا ہے،لیکن یہ ادویہ بہت مہنگی ہوتی ہیں۔عام آدمی انھیں نہیں خرید سکتا۔سرطان کے علاج میں پندرہ سے بیس لاکھ روپے ماہانہ خرچ ہو سکتے ہیں۔بعض ادویہ دوسرے ملکوں سے بھی منگوانی پڑتی ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں اب تک کوئی ایسا نظام نہیں بن سکا،جو سرطان میں مبتلا غریب مریضوں کی اعانت کر سکے۔

سرطان کا مریض چار مرحلوں سے گزر سکتا ہے۔اگر کوئی مریض پہلے،دوسرے یا تیسرے مرحلے میں پہنچ گیا ہے تو اس کا علاج کیا جا سکتا ہے،لیکن چوتھے مرحلے میں پہنچ کر مریض ناقابلِ علاج ہو جاتا ہے۔چونکہ مریض برسوں اپنا چیک اپ نہیں کراتے اور سرطان کے بارے میں ان کی آگہی بہت کم ہوتی ہے،اس لئے وہ سرطان کا نام سُن کر اتنے خوف زدہ ہو جاتے ہیں کہ شروع کے مرحلوں ہی میں انھیں اپنی موت نظر آنے لگتی ہے۔
یہ رویہ بہت غیر صحت مندانہ ہے۔اسے ترک کرنا پڑے گا۔سرطان سے متعلق بنیادی آگہی بہت ضروری ہے۔سرطان کی چند اقسام ایسی ہیں،جو مکمل علاج سے قابو میں آ جاتی ہیں،جب کہ چند اقسام میں ادویہ صرف مزاحمت کرتی ہیں۔
سرطان سے محفوظ رہنے کے لئے سب سے پہلی تدبیر ورزش ہے۔سرطان کے مریض کے لئے ورزش کرنا بہت ضروری ہے۔اسے خود کو فعال اور صحت مند رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
ذہنی دباؤ سے چھٹکارا پانے کے لئے بھی ورزش سب سے اچھا اور مفید طریقہ ہے۔شکر والی،تلی ہوئی اور بازار کی تیار شدہ غذائیں کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔خود کو ذہنی دباؤ سے دُور رکھیں۔مشکلات اور مسائل سب کی زندگی میں آتے ہیں،ان کی وجہ سے ہمہ وقت پریشان رہنا عبث ہے۔موٴثر تدابیر اور ٹھنڈے دل و دماغ سے ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
سرطان پسماندہ ملکوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے،خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان میں۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ چند برسوں میں سرطان دنیا بھر میں موت کا سب سے بڑا سبب بن سکتا ہے۔سرطان کے اسباب میں غیر صحت مندانہ طرز زندگی،زیادہ وقت ٹیلی ویژن دیکھنا اور نیٹ پر کام کرتے ہوئے گزارنا،منفی سوچ اور بازار کی تیار شدہ غذائیں کھانا شامل ہیں۔یاد رکھیے انسان کو صحت مند رکھنے اور بیماریوں سے بچانے کے لئے غذائیں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
شہروں میں ریستورانوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے،جہاں چٹ پٹے سیخ کباب،ریشمی کباب،تکہ،کٹا کٹ (جس میں دل،گردے،مغز اور تیز مرچ مسالے شامل ہوتے ہیں)،نلی یا مغز والی نہاری،پائے،ملائی بوٹی،قورمہ اور بریانی دستیاب ہوتی ہے۔ان غذاؤں کے عادی افراد سرطان کی لپیٹ میں آسانی سے آ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ تفکرات اور رنج و غم بھی سرطان کی وجوہ ہیں۔
خوش مزاج اور زندہ دل افراد کی نسبت مضمحل اور افسردہ افراد بہ آسانی سرطان کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔سرطان کے مریض کا جب آپریشن کیا جاتا ہے تو خون کی پراگندگی پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے،اس لئے مریض کو بچانا مشکل ہوتا ہے۔آپریشن کے ذریعے سرطانی رسولیوں کو نکال دیا جاتا ہے،لیکن اگر یہ رسولیاں بہت زیادہ پھیل چکی ہوں تو معاملہ انتہائی خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی پیش گوئی کے مطابق سرطان کا عفریت جس تیزی سے پھیل رہا ہے،اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اگلے دس برسوں میں قیامت برپا کر سکتا ہے۔صحت سے متعلق سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو اس خطرناک مسئلے کا فوری حل تلاش کرنا چاہیے۔لوگوں کو سرطان سے متعلق آگہی فراہم کرنی چاہیے،تاکہ وہ اپنا بچاؤ کر سکیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں سرطان کے ماہرین کی کمی ہے۔
یہاں ایسے بہت کم مراکز ہیں،جو سرطان میں مبتلا مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔
پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے علاوہ منہ اور پھیپھڑوں کا سرطان عام ہے۔اس کے علاوہ سر اور گردن کا سرطان،بڑی آنت کا سرطان،غدئہ قدامیہ (پروسٹیٹ گلینڈ) اور جگر کے سرطان بھی عام ہیں۔ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ کوئی بھی فرد کسی بھی وقت سرطان کی زد میں آ سکتا ہے۔سرطان سے چھٹکارا پانے کے لئے طرز زندگی کو تبدیل کرنا بہت ضروری ہے۔
اس کے علاوہ صحت بخش غذائیں کھانی چاہییں۔روزانہ ورزش کی جائے۔ذہنی دباؤ سے دُور رہا جائے۔نشہ آور اشیاء سے پرہیز کیا جائے۔تمباکو نوشی سے دس سے پندرہ اقسام کے سرطان لاحق ہونے کے خطرات ہوتے ہیں۔بھیڑ،بکری اور گائے کا گوشت بہت کم کھایا جائے۔روغنی غذائیں بھی کم کھائی جائیں۔روزانہ پھل اور سبزیاں،خاص طور پر ٹماٹر کھائے جائیں،اس لئے کہ ٹماٹر کھانے سے غدئہ قدامیہ کے سرطان کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

پھل اور سبزیاں چھاتی کے سرطان کے علاوہ دوسرے سرطانوں کی رفتار کو بھی بہت کم کر دیتی ہیں۔سرطان کے خطرے سے محفوظ رہنے کے لئے پیاز،لہسن،سبز رنگ کی سبزیاں،کرم کلہ،بند گوبھی،شاخ گوبھی(بروکولی)،لیموں،کینو،موسمی،سیب،انگور،سویابین اور چائے مفید غذائیں ہیں۔لبلبے کا سرطان پھل اور سبزیاں کھا کر کم کیا جا سکتا ہے۔غدئہ قدامیہ کے سرطان کو ٹماٹر،گاجر اور پھل کھا کر قابو میں کیا جا سکتا ہے۔
پھیپھڑوں کے سرطان کے خطرے سے گاجر اور ہرے پتوں والی سبزیاں کھا کر بچا جا سکتا ہے۔بڑی آنت کے سرطان کے امکان کو بھی سبزیاں اور گاجر کھا کر کم کیا جا سکتا ہے۔نرخرے،منہ اور حلق کے سرطان میں مختلف قسم کے پھل کھا کر حفاظت کی جا سکتی ہے۔معدے کے سرطان سے بچنے کے لئے بھی پھل اور سبزیاں زیادہ کھانی چاہییں۔
سرطان سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔
یہ قابلِ علاج مرض ہے۔سرطان کے علاج میں کیموتھراپی (Chemotherapy) بھی کی جاتی ہے،لیکن یہ آخری مرحلے میں موٴثر ثابت نہیں ہوتی۔سرطان کے علاج میں اسکریننگ (Screening) بھی فائدہ مند ہوتی ہے،خاص طور پر چھاتی کے سرطان میں۔معالجین اسکریننگ کا طریقہ بھی استعمال کرتے ہیں۔مریضوں کو بھی چاہیے کہ وہ معالجین سے اسکریننگ کے طریقہ کار کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔
اس ضمن میں معالجین بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔
مریض سرطان سے متعلق معلوماتی کتابچے پڑھے۔معالجین سے سوالات کرکے سرطان کے تدارک کے متعلق زیادہ سے زیادہ دریافت کرے،اس لئے کہ علاج سے زیادہ اس کے تدارک پر توجہ دینی چاہیے۔سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنے،ہنسی خوشی رہنے،متوازن غذا کھانے اور اللہ پر مکمل بھروسا کرنے سے سرطان سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

Browse More Cancer