Barhte Hue Zehni Amraz - Article No. 2498

Barhte Hue Zehni Amraz

بڑھتے ہوئے ذہنی امراض - تحریر نمبر 2498

دماغ جسم کا اہم ترین عضو ہے،جو کنٹرول روم کا کام کرتا ہے۔بھوک کا لگنا،پیاس کا لگنا،نیند کا آنا،بولنا اور چلنا پھرنا وغیرہ،غرض ان تمام افعال کا تعلق دماغ سے ہے،لہٰذا جب دماغ میں کوئی خرابی ہوتی ہے تو یہ تمام افعال متاثر ہوتے ہیں،اس کو ہم ذہنی مرض یا ذہنی امراض کہتے ہیں

پیر 25 جولائی 2022

حکیم حارث نسیم سوہدروی
انسانی جسم قدرت کی ایک شاہکار مشین ہے،جس کا نظام بہت پیچیدہ ہے۔اس کا ہر عضو اس مشین کا ایک پُرزہ ہے اور اس کا اپنا ایک کام ہے،جو وہ خودکار طریقے سے سر انجام دیتا ہے۔دل،دماغ،جگر،پھیپھڑے،معدہ،پتا،گردے،کان،ناک اور آنکھ سب ایک خودکار نظام کے تحت ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں۔یہ تمام اعضا،یعنی پرزے پیدائش سے لے کر موت تک کام کرتے رہتے ہیں۔
جس طرح کسی مشین کا کوئی پرزہ خراب ہو جائے تو مشین اپنا کام کرنا چھوڑ دیتی ہے،یعنی جسم کا کوئی عضو خراب ہو جائے تو پورا جسمانی نظام متاثر ہو جاتا ہے اور جسم کی کارکردگی میں فرق آ جاتا ہے۔اسی طرح دماغ جسم کا اہم ترین عضو ہے،جو کنٹرول روم کا کام کرتا ہے۔بھوک کا لگنا،پیاس کا لگنا،نیند کا آنا،بولنا اور چلنا پھرنا وغیرہ،غرض ان تمام افعال کا تعلق دماغ سے ہے،لہٰذا جب دماغ میں کوئی خرابی ہوتی ہے تو یہ تمام افعال متاثر ہوتے ہیں،اس کو ہم ذہنی مرض یا ذہنی امراض کہتے ہیں۔

(جاری ہے)

ان امراض کی تشخیص بھی مشکل ہوتی ہے اور علاج بھی۔
آج سائنس کی بے انتہا ترقیوں نے مرض کو سمجھنا آسان بنا دیا ہے،مگر چونکہ ذہنی امراض کی مخصوص کیفیات ہوتی ہیں،اس لئے یہ اکثر کسی ٹیسٹ میں ظاہر نہیں ہوتے،لہٰذا ان کا علاج مشکل ہوتا ہے۔ذہنی امراض کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ چالیس لاکھ سے زیادہ لوگ ذہنی امراض میں مبتلا ہیں،جن کے اسباب میں گھریلو جھگڑے،حساسیت،تشدد،دفتری سیاست،توہین آمیز رویے،معاشی مسائل،بے روزگاری،مہنگائی اور خاندانی مسائل شامل ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایک صحت مند دماغ ہی صحت مند جسم کا مالک ہوتا ہے،یعنی صحت مند دماغ اور صحت مند جسم لازم و ملزوم ہیں اور صحت مند افراد ہی دنیا میں ترقی و کام رانی کی منازل طے کرتے ہیں۔ایک صحت مند دماغ سے مراد یہ ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں مثبت سوچ رکھے،اپنی ذمے داریاں پوری کرے،روزمرہ کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو اور معمولاتِ زندگی ترتیب کے ساتھ خوش اسلوبی سے سر انجام دیتا ہو۔
آج کل جن ذہنی امراض کا زور و شور ہے،ان میں اضمحلال و افسردگی (ڈپریشن)،بے چینی و بے قراری (اینگزائٹی) پراگندہ ذہنی یعنی اسکیز و فرینیا،ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ شامل ہیں۔
دنیا میں 30 فیصد لوگ ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق مستقبل میں یہ ذہنی امراض موت کی سب سے بڑی وجہ بن سکتے ہیں۔مختلف قسم کے مسائل و حالات اور عوامل ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ کو جنم دیتے ہیں۔
مطب کے مشاہدات کے مطابق ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ اس دور کے سب سے عام امراض ہیں،لوگ ان سب کو اضمحلال و افسردگی کا نام دیتے ہیں،جو درست نہیں ہے۔اضمحلال و افسردگی کا مرض موڈ ڈس آرڈر (Mood Disorder) کہلاتا ہے۔اس مرض میں انسان پر اُداسی اور مایوسی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے،جس کی علامات مایوسی،بے ہمتی،رونا دھونا،ناامیدی،بے چینی اور تنہائی ہو سکتی ہیں۔
اس کیفیت کا شکار انسان اپنے تمام عزیز و اقارب اور سرگرمیوں کو چھوڑ کر خودکشی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔بے چینی و بے قراری،یعنی اینگزائٹی بلاوجہ کی پریشانی،خوف و گھبراہٹ اور ہر وقت کے مسائل کے حوالے سے فکر مند رہنے والا ایک عارضہ ہے۔اگر کوئی فرد اینگزائٹی میں مبتلا ہے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ مضمحل و افسردہ بھی ہو،تاہم اینگزائٹی کا مسلسل شکار رہنے والے اضمحلال و افسردگی،یعنی ڈپریشن میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

اصل میں معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کے مختلف مسائل ہوتے ہیں،جن سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے،مثلاً گھریلو جھگڑے،ازدواجی زندگی کے مسائل،والدین سے خراب تعلقات،پسند کے خلاف شادی،میاں بیوی میں ناچاقی اور جسمانی بیماری وغیرہ۔ان مسائل سے نبرد آزمائی میں بعض لوگ جلد مایوس ہو جاتے ہیں،اس طرح وہ اینگزائٹی میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ایسے لوگوں کی زبان پر یہ جملے ہوتے ہیں کہ میری زندگی بے مقصد ہے،ایسی زندگی سے تو مر جانا ہی بہتر ہے اور میں گھر اور دنیا پر بوجھ ہوں۔ایسی باتیں کرنے والے لوگ ذہنی طور پر بیمار رہنے لگتے ہیں اور بالآخر ذہنی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔عہدِ حاضر میں سوشل میڈیا بھی ذہنی صحت پر اثر انداز ہو رہا ہے اور موبائل و انٹرنیٹ کا بے تحاشا استعمال بھی لوگوں کو تنہا کر رہا ہے۔
جسمانی سرگرمیوں کا فقدان ہو رہا ہے اور اس کا شکار زیادہ تر 30 برس سے کم عمر کے افراد ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ذہنی امراض معذوری کی بڑی وجہ بنتے جا رہے ہیں۔ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں سے علیحدگی اختیار نہ کی جائے،یعنی انھیں تنہا نہ کیا جائے۔انھیں اتائیوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے،بلکہ ماہرین صحت کو دکھایا جائے اور اس طرح ان کی مدد کی جائے۔
انھیں خوش رکھا جائے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوا جائے۔دوست احباب اور عزیز و اقارب ان سے ملتے اور ان کا دل بہلاتے رہیں،اس طرح رفتہ رفتہ وہ ذہنی مرض کے چنگل سے نجات پا لیں گے۔
ذہنی امراض سے بچنے کا سب سے محفوظ و مفید طریقہ یہ ہے کہ روزانہ اپنے رب کے سامنے سربہ سجود ہو کر اپنی تمام پریشانیاں اور مشکلات صدقِ دل سے اُس سے بیان کر دی جائیں۔
اس کے علاوہ متوازن زندگی گزاری جائے،خلقِ خدا کی مدد کی جائے،صبح و شام پابندی سے چہل قدمی کی جائے،مثبت اندازِ فکر اختیار کیا جائے اور اپنی تمام ذمے داریاں خوش اسلوبی سے پوری کی جائیں۔
جدید تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ہر دس افراد میں سے ایک فرد کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں ضرور گرفتار ہے۔
ماہرین صحت کہتے ہیں کہ روزانہ 470 گرام تازہ پھل اور سبزیاں کھانے سے ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے،اس لئے کہ تازہ پھلوں اور سبزیوں میں حیاتین (وٹامنز)،معدنیات(منرلز)،مانع تکسید اجزاء (Antioxidants) اور فلیوونائڈز (Flavonoids) پائے جاتے ہیں،جو نہ صرف جسم میں کسی بھی سوزش کو ختم کرتے ہیں،بلکہ دماغ کو بھی پُرسکون رکھتے ہیں،افعال میں بہتری اور طبیعت میں فرحت و تازگی پیدا کرتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت بھی روزانہ 400 گرام پھل اور سبزیاں کھانے کا مشورہ دیتا ہے۔

Browse More Depression