Talaq Ke Baad Nafsiyati Masail - Article No. 2949

Talaq Ke Baad Nafsiyati Masail

طلاق کے بعد نفسیاتی مسائل - تحریر نمبر 2949

طلاق ایک ایسا عمل ہے، جو ذہنی صحت متاثر کر دیتا ہے۔اینگزائٹی، ڈپریشن، پچھتاوا، غصہ اور اکیلا پن خاص طور پر ایک خاتون کی پوری زندگی کو توڑ پھوڑ کا شکار کر دیتا ہے۔

پیر 7 اپریل 2025

عزیز فاطمہ
طلاق ایک بدنما داغ ہے معاشرے کا ناسور ہے ایک قبیح فعل ہے تین الفاظ سے شروع ہو کر تین لفظوں پر ختم ہونے والا ایک کمزور رشتہ۔معاشرے میں طلاق سے متعلق ایسی کئی باتیں سُننے کو ملتی ہیں۔قطع نظر اس کے کہ یہ سب خیالات ہیں یا نہیں، انھیں طلاق جیسے فعل کے لئے ہی مخصوص ہونا چاہیے، نہ کہ اس فرد کے لئے جو اس کا شکار ہو۔
بے شک طلاق اللہ تعالیٰ کا ناپسندیدہ عمل ہے، لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو جائز اور حلال بنا دیا؟
میاں بیوی کا رشتہ دنیاوی رشتوں میں بننے والا پہلا رشتہ ہے۔یہ رشتہ جتنا مضبوط ہے، اتنا ہی نازک بھی۔میاں بیوی کو گاڑی کے دو پہیے کہا جاتا ہے۔گاڑی چلانے کے لئے ان پہیوں میں توازن ازحد ضروری ہے۔اگر کسی ایک پہیے کا توازن بگڑ جائے، تو حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

زندگی جہنم بن سکتی ہے اور بعض اوقات تو فریقین ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔اس اذیت سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے طلاق جیسے عمل کو جائز قرار دیا ہے۔طلاق کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں، لیکن دیکھا گیا ہے کہ طلاق کی وجہ چاہے جو بھی ہو، اس کا خمیازہ زیادہ تر مطلقہ خاتون ہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔جذباتی، معاشرتی اور معاشی بحران سے گزرنا پڑتا ہے، مناسب رہائش، اپنی اور اگر بچے ہوں، تو ان کی کفالت کے لئے معقول انتظام، رشتے داروں، دوستوں اور دیگر افراد کے الزامات، طعنے تشنے برداشت کرنے پڑتے ہیں، معاشرے میں اپنی شناخت دوبارہ بنانی پڑتی ہے۔
ہر موقعے پر خود کو لوگوں کے کٹہرے میں کھڑی پاتی ہے، ہر ایک کو وضاحتیں دینی پڑتی ہیں۔گوکہ جب ایک عورت کو طلاق ہو جائے، تو اس پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔مسائل کا ایک انبار اس کا منتظر ہوتا ہے۔
ایک مطلقہ خاتون کے لئے سب سے پہلا مسئلہ ایک محفوظ چھت ہے۔اگر عورت صاحبِ حیثیت نہیں، تو مسئلہ مزید گمبھیر ہو جاتا ہے۔اسے اپنے مخصوص معیارِ زندگی سے خاصہ درجے نیچے آنا پڑتا ہے۔
اس کے بعد مناسب روزگار کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔گھر کی سربراہی کا بوجھ اُٹھاتے ہوئے مرد و خاتون دونوں کی ذمے داریاں پوری کرنی پڑتی ہیں۔اگر اس مطلقہ خاتون کے باپ یا بھائی اسے رہائش فراہم کر بھی دیتے ہیں، تو اس کو پہلے والا مقام کوشش کے باوجود فراہم نہیں کر سکتے۔اس کے اپنے گھر ہی میں موجود نئے رشتے اس شراکت کو پوری طرح قبول نہیں کر پاتے۔
اس موقعے پر اگر گھر والے لڑکی کو وراثت میں سے حصہ دے دیں، تو ناصرف خاتون کے لئے زندگی گزارنے کا انتظام ہو جائے گا، بلکہ والدین بھی اپنی آخرت سنوار لیں گے۔اگر اس خاتون کا آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں، تو حالات مزید بگڑ جاتے ہیں۔والدین کو چاہیے، اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے علاوہ بھی کوئی نہ کوئی ہنر سکھائیں ،تاکہ مشکل حالات میں وہ معاشی مشکلات کا شکار نہ ہوں۔

حق مہر، بچوں کی کسٹڈی اور کفالت کی ذمے داری کے لئے بھی مطلقہ خاتون ہی کو قانونی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔اس کے لئے بھی اسے معاشی اور معاشرتی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔معاشرے میں موجود افراد کو عورت پر الزام تراشی کی بجائے طلاق دینے والے مرد پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ عورت اور بچوں کو اس کا شرعی اور قانونی حق دے، چاہے بچے ماں ہی کے پاس کیوں نہ ہوں۔
ایک مرد کو ان سب چیزوں کا فیصلہ کھلے دل سے شریعت کے اصولوں کے عین مطابق کرنا چاہیے، لیکن ہم اپنے معاشرے کی بے حسی دیکھ سکتے ہیں، جو ایک لاچار عورت کا حق بڑی بے رحمی سے غضب کر لیتے ہیں۔طلاق ہوتے ہی ایک دوسرے پر رکیک الزامات اور کردار کشی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جو نہایت افسوس ناک امر ہے، کیونکہ اس کے سب سے زیادہ منفی اثرات بچوں پر مرتب ہوتے ہیں۔
وہ سب سے زیادہ حالات کی چکی میں پستے ہیں اور محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں، حالانکہ طلاق یافتہ فریقین اولاد ہونے کی صورت میں کبھی بھی مکمل طور پر علیحدہ نہیں ہو سکتے ہیں۔اولاد کی بہتری کے لئے ان کی زندگی کے معاملات، مسائل کا حل اور فیصلے ماں باپ کو مل کر ہی کرنے پڑتے ہیں۔اس لئے ایک دوسرے کی عزت و احترام میں فرق نہیں آنا چاہیے۔اس سے بچوں کی زندگیوں پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

طلاق ایک ایسا عمل ہے، جو ذہنی صحت متاثر کر دیتا ہے۔اینگزائٹی، ڈپریشن، پچھتاوا، غصہ اور اکیلا پن خاص طور پر ایک خاتون کی پوری زندگی کو توڑ پھوڑ کا شکار کر دیتا ہے۔بہتر تو یہی ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے رجوع کریں۔اس کے آگے روئیں، گڑگڑائیں اور اپنے سارے دُکھ درد بیان کر دیں۔اس طرح اپنا کتھارسس کریں، اپنے پیاروں کے کندھے پر سر رکھ کر اپنے دل کا سارا غبار نکال دیں۔
خود کو تھوڑا وقت دیں اور اس کے بعد آئندہ زندگی کا لائحہ عمل ترتیب دیں۔اگر کوئی مناسب امیداوار ہو تو اس پر ضرور غور کریں۔اچھے موقعے کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔خوشیوں پر آپ کا پورا حق ہے۔زندگی کی نئی شروعات کریں۔فارغ نہ بیٹھیں، کام کریں اور خاص طور پر اپنے دماغ کو مصروف رکھیں۔مثبت رہیں، مثبت سوچیں، اپنے آپ پر بھروسہ کریں اور دوسروں پر بوجھ بننے کی بجائے دوسروں کا سہارا بننے کی کوشش کریں۔اپنی نیند اور کھانے پینے کا خیال رکھیں۔پیدل سیر کریں۔اگر ذہنی پریشانی زیادہ بڑھتی محسوس ہو تو ماہرِ نفسیات سے رابطہ کرنے میں بالکل نہ ہچکچائیں۔بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

Browse More Depression