Ankhoon Ki Hifazat Behaad Zaroori - Article No. 1757

Ankhoon Ki Hifazat Behaad Zaroori

آنکھوں کی حفاظت بے حد ضروری - تحریر نمبر 1757

ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بھر میں تیس کروڑ ساٹھ لاکھ افراد اندھے پن کے مرض میں مبتلا ہیں

منگل 17 دسمبر 2019

ڈاکٹر مصباح العزیز
ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بھر میں تیس کروڑ ساٹھ لاکھ افراد اندھے پن کے مرض میں مبتلا ہیں، جب کہ صحت کے ایک جریدے''LANCET GLOBAL HEALTH'' میں شائع شدہ ایک رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر بینائی سے متعلق طبی مسائل میں اضافے کی یہ رفتاررہی تو 2050ء تک دنیا بھر میں اندھے پن کے شکار افراد کی تعداد ایک ارب پندرہ کروڑ تک پہنچ جائے گی۔
امراض چشم کے مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے،جہاں دو کروڑ افراد بینائی کے مختلف عوارض کا شکار ہیں،جن میں تیس لاکھ بچے بھی شامل ہیں،جب کہ ان مریضوں میں سے 80فیصد مریض موتیا کے مرض میں مبتلاہیں۔
یوں تو آنکھوں کی بے شمار بیماریاں ہیں،مگر ہمارے یہاں نظر کی کمزوری ،سفید اور کالاموتیا زیادہ عام ہیں ۔

(جاری ہے)

سفید موتیا ایک ایسا عارضہ ہے،جس میں آنکھ کا عدسہ بتدریج دھند لا ہو کر بینائی تک ضائع ہونے کا سبب بن جاتاہے۔اصل میں عمر کے ساتھ آنکھ کے عد سے میں ٹوٹ پھوٹ سے گد لا پن تو آتاہے،لیکن بعض اوقات یہ اس حد تک بڑھ جاتاہے کہ آنکھ کے اندر مکمل طور پر روشنی ہی نہیں پہنچ پاتی،جس کے باعث افراد اور چیزیں غیر واضح نظر آنے لگتی ہیں،یہاں تک کہ روز مرہ امور انجام دینا دشوار ہو جاتاہے، تاہم سفید موتیے کی ایک قسم ایسی بھی ہے،جس میں مریض کے معمولات زندگی متاثر نہیں ہوتے۔

کالا موتیا اس کے بالکل برعکس ہے۔کالا موتیا جسے طبی اصطلاح میں”گلوکوما“(GLAUCOMA) کہتے ہیں۔چشم کے مہلک امراض میں شمار ہوتاہے۔اگر اس کے سبب ایک بار بینائی ضائع ہوجائے تو پھر کسی صورت بحال نہیں ہوتی ،تاہم بر وقت تشخیص اور علاج سے بینائی مکمل طور پر ضائع ہونے سے بچائی جا سکتی ہے۔ہمارے یہاں یہ تصور عام ہے کہ سفید موتیا دائمی ہو جائے تو کالے موتیے میں بدل جاتاہے،جو قطعاً درست نہیں۔
موتیے کا عارضہ عمر کے کسی بھی حصے،خصوصاً بڑی عمر میں لاحق ہوتاہے۔ بعض کیسوں میں یہ موروثی بھی ہوتاہے۔
سفید موتیے کے علاج کے لیے بذریعہ آپریشن آنکھ کی جھلی نکال کر اس کی جگہ مصنوعی لینز لگا دیا جاتاہے ،تاکہ زندگی معمول کے مطابق بسر کی جاسکے،جب کہ کالے موتیے کا علاج بر وقت تشخیص ہی سے ممکن ہے،لہٰذا جب عمر چالیس سال سے زیادہ ہو جائے تو خواہ کوئی تکلیف ہو یا نہ ہو،آنکھوں کا سالانہ طبی معائنہ لازماً کروایا جائے اور اگر کالا موتیا فیملی ہسٹری میں شامل ہوتو پھر خاندان کے تمام افراد ہر سال اپنی آنکھوں کا معائنہ کروائیں ۔
کالے موتیا کا علاج اس کی نوعیت کے مطاق ادویہ،آنکھوں کے قطرے، لیزر شعاعوں اور سر جری کے ذریعے کیا جاتاہے۔
نظر کی کمزوری دور کی بھی ہوسکتی ہے اور نزدیک کی بھی۔گزشتہ چند دہائیوں سے ہرعمر کے افراد،خاص طور پر بچوں میں نظر کی کمزوری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے،جس کی بنیادی وجہ انٹرنیٹ،کمپیوٹر،لیپ ٹاپ،موبائل اور ٹیبلیٹ وغیرہ کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔
نظر کی کمزوری سے محفوظ رہنے کے لیے ان الیکٹرانک ڈیوائسز کا کم سے کم استعمال کیا جائے۔پھر موجودہ دور میں چونکہ دفاتر میں بھی کمپیوٹر کا استعمال ضروری ہو گیا ہے،اس لیے ہر پندرہ منٹ بعد کچھ سیکنڈ کے لیے آنکھیں اسکرین سے ضرور ہٹائیں، کیونکہ مستقل نظریں جمائے رکھنے سے جہاں آنکھیں تھکاوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں،وہیں مزاج میں بھی چڑ چڑاپن پیدا ہو جاتاہے۔
نیز ائرکنڈیشنڈ کمرے بھی آنکھوں کے پردے خشک کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک مرض آشوب چشم بھی ہے،جس میں آنکھ کی سامنے والی جھلی متاثر ہو جاتی ہے۔اس کی عام علامات میں آنکھوں سے پانی آنا،آنکھوں کا متورم ہوجانا اور چبھن کا احساس وغیرہ شامل ہیں۔بعض اوقات سوکر اُٹھنے کے بعد پپوٹے آپس میں چپک جاتے ہیں تو ازخود کسی بھی قسم کے آنکھوں کے قطرے وغیرہ استعمال کرنے کے بجائے ماہر معالج سے رجوع کیا جائے۔
علاوہ ازیں بعض امراض بھی آنکھوں پر مضر اثرات مرتب کرتے ہیں،جیسا کہ ذیابیطس،اس کا اندازہ اس طرح لگائیں کہ اندھے پن کے شکار الگ بھگ 50فیصد مریض ذیابیطس کا شکار ہوتے ہیں،جب کہ متاثرہ مریضوں میں سفید یا کالے موتیے کے امکانات بھی عام افراد کی نسبت زیادہ پائے جاتے ہیں۔بہتر ہو گا کہ ذیابیطس سے متاثرہ مریض کم از کم ہر چھے ماہ بعد آنکھوں کا معائنہ ضرور کروائیں۔
پھر ایک لا علاج مرض رتوندھا (NYCTALOPIA)بھی ہے،جسے عرف عام میں”شب کوری“کہا جاتاہے۔اس بیماری میں اندھیرے اور کم روشنی میں کچھ دکھائی نہیں دیتا،جس کی وجہ آنکھ کے اندرونی پردے کی خرابی ہے۔یہ مرض رفتہ رفتہ بڑھتاہے ،لہٰذا جن خاندانوں میں شب کوری کا مرض موروثی ہو،وہاں آپس میں شادیاں نہ کی جائیں تو بہترہے۔
ہمارے یہاں کانٹیکٹ لینز کا استعمال بھی عام ہے،لیکن اس ضمن میں احتیاطی تدابیر اختیار کرناناگزیر ہے،مثلاً ہمیشہ اعلا معیار کے لینز استعمال کیے جائیں،ان کا محلول ہر تین دن بعد تبدیل کریں اور ہمیشہ صاف ستھری جگہ پر رکھیں۔
ختم المعیاد تاریخ کے بعد آنکھوں میں لگانے سے گریز کیا جائے۔لینز اُتارنے اور لگانے سے قبل اچھی طرح ہاتھ دھوئیں،رات کو ہر گز لگا کر نہ سوئیں۔اگر آنکھ میں سرخی یارطوبت ہو یا پانی نکل رہا ہوتو لینز ہر گز استعمال نہ کریں،لگانے سے کوئی چبھن یا تکلیف ہوتو فوراً اُتار دیں۔بصورت دیگر آنکھوں کے سامنے کے حصے میں زخم بن سکتے ہیں اور اگر زخم میں تعدیہ(انفیکشن)ہو جائے تو بینائی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

اسی طرح موٹر سائیکل سوار کے لیے ہیلمٹ کا استعمال آنکھوں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوتاہے، کیونکہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ایک تو آنکھوں کو مستقل ہوا لگتی ہے،جس سے وہ خشک ہونے لگتی ہیں، دوم اگر مٹی یاریت وغیرہ کا کوئی ذرہ آنکھ میں چلا جائے تو خطر ناک ثابت ہو سکتاہے۔جو غذائیں جسم کو توانائی فراہم کریں،اُن کا کھانا بینائی کے لیے بھی مفید ثابت ہوتاہے۔بصارت کی کمزوری اور دیگر عوارض چشم سے محفوظ رہنے کے لیے آنکھوں کی حفاظت کی جائے اور اس کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل نا گزیرہے۔

Browse More Eyes