Behtar Gazaiyat Tak Rasai - Article No. 1315

Behtar Gazaiyat Tak Rasai

بہتر غذائیت تک رسائی - تحریر نمبر 1315

بچوںو نوجوانوں کو صحیح نشوونما اور غذائیت کی ضرورت ہےورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق عالمی سطح پر، یہ5سال سے کم عمر کے بچوں کی 45فیصد ہلاکتوں کی وجہ کیا ہے؟کسی بھی ملک کے وسائل کو جانچنے کیلئے ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کا استعمال کیا جاتا ہے

منگل 29 مئی 2018

اقام الدین:
بچوںو نوجوانوں کو صحیح نشوونما اور غذائیت کی ضرورت ہےورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق عالمی سطح پر، یہ5سال سے کم عمر کے بچوں کی 45فیصد ہلاکتوں کی وجہ کیا ہے؟کسی بھی ملک کے وسائل کو جانچنے کیلئے ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کا استعمال کیا جاتا ہے موجودہ صورتحال میں پاکستان ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں بہت نچلی سطح پر موجود ہے جو اس بات کی طرف ایک واضح اشارہ ہے کہ اس ملک کے بچوں اور نوجوانوں کو صحیح نشوونما اور غذائیت کی ضرورت ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)غیر معیاری غذائیت کو گمھبیر ترین واحد خطرہ“ قرار دیتا ہے جس کا دنیا کو فی الحال سامنا ہے۔ غیر معیاری غذائیت، جسے کم غذائیت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، کو ایک اہم طبی حالت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جو ضروری کیلوریز(حراروں)، مائیکرو غذائی اجزاء(معدنیات اور وٹامنز) اور میکرو غذائی اجزاء(چربی، پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ) کے ناکافی طور پر لینے سے پیدا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)کے مطابق عالمی سطح پر، یہ5سال سے کم عمر کے بچوں کی 45 فیصد ہلاکتوں کی وجہ ہے،WHOنے موجودہ غذائیت کے بحران کو طبی اور انسانی حقوق کے ہنگامی اور عوامی صحت کے طویل المدتی درپیش مسئلے کے طور پر بھی بیان کیا ہے۔ ہمارے بچے دنیا کے کسی غلط خطے میں پیدا نہیں ہوئے، اور نہ ہی انہیں مالی وسائل کی کوئی کمی ہے، نہ ہی منصوبہ بندی لاگو کرنے کیلئے ضروری اعداد و شمار کی غیر موجودگی ہے اور نہ ہی سماجی سیکٹر اصلاحات کو ان پر ترجیح دیتا ہے۔
حقیقتاً بچوں اور ان کے مسائل کو متعلقہ ریاستی حکام اور ایجنسیوں کی جانب سے عام طور پر ”معمولی“ کہنے کے بجائے سنجیدگی سے لیا جانا اب ناگزیر ہے۔ چونکہ نامناسب غذائیت لینے والے بچے، خصوصاً پانچ سال سے کم عمر کے ہوتے ہیں،لہٰذا ان کی اموات کی شرح پاکستان میں بڑے پیمانے پر بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے اموات کا شکار ہونے والوں کی شرح میں سب سے بلند ہے، جبکہ دوسری جانب غربت اور بھوک چہار جانب پھیلی ہوئی ہے اور کھانے کی مصیبت کی وجہ سے بچوں کی جانوں کو سخت خطرہ لاحق ہے،ان میں شیر خوار بچے اور بہت چھوٹے بچے شامل ہیں جو ہر روز غذائیت کی کمی اور سخت بھوک سے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ملک کی سب سے کم عمر آبادی نامناسب غذائیت کا شکار ہے یا ان بڑے افراد کے فیصلوں کے رحم و کرم پر ہے جو بجائے خود غربت کی سطح سے نیچے رہتے ہیں، لہٰذا وہ خود اپنے زیر کفالت افراد خصوصاً خواتین اور بچوں کی بھوک کو ختم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان کی محفوظ پانی تک رسائی اور کافی مقدار میں خوراک حاصل کرنے کی مسلسل کوششیں اور جدوجہد ناکام ہو جاتی ہے، جس کا نتیجہ بچوں کو کھانے کے بحران اور ناقص کھانے کی صورت میں اپنے جسموں میں خون کی کمی اور خراب نشو و نما کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا ہے۔
کم غذائیت کی ماری ایک مجبور و لاچار نسل کو بھی پروان چڑھانا ہے جو معاشرے پر سوائے ایک بوجھ کے اور کچھ نہیں، کیونکہ حکومتوں کی مجموعی غفلت، خراب سماجی و اقتصادی نتائج دیتی ہے جو طویل المدتی ہوتے ہیں۔ ایک انسانی بحران جو تیزی سے سر اٹھا رہا ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کے لئے ہم سے انکی غذائیت کی موجودہ حالت اور بڑھنے سمیت ان کی مکمل صلاحیتوں تک نشو و نما کے بارے میں کئے جانے والے فوری اقدامات کا متقاضی ہے چونکہ بچوں کی زندگی کیپ ہلے دو سال ان کی جسمانی نشو و نما، دانشورانہ اور ذہتی ترقی کی سب سے زیادہ اہم مدت ہیں، اس لئے زیادہ ضروری ہے کہ انہیں مستحکم بنیادوں پر کھانے والے ایسے اجزاءفراہم کئے جائیں جو عام طور پر باقاعدگی سے کھانے کی چیزوں میں نہیں ہوتے،ملک کے مستقبل میں انسانی وسائل کو بچانے کے لئے میکرو اور مائیکرو یعنی دونوں ہی سطحوں پر سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
تاہم اعداد و شمار کی بھول بھلیوں میں داخل ہونے کے بجائے ہمیں 22 ویں صدی کے لئے حکمت عملی کی تربیت کرنی چاہئے۔ آج کے غذائیت کے متعلقہ بحران پر قابو پانے کے لئے طویل المدتی حکمت عملی کو فروغ دینااوراس پر عمل کرنا ہوگا، جس میں درست طور پر غذا تک عام رسائی کو بہتر بنانا ہوگا۔ضروری غذائی اجزاءجیسے معدنیات، فائبر اور وٹامنز جو انسانی جسم کی نشو نما کے لئے اہم ہیں، خاص طور پر غریب سماجی اوراقتصادی پس منظر رکھنے والے زیادہ تر بچوں کی روز دی جانے والی غذا سے غائب ہیں۔
دو سال سے کم عمر کے بچوں کے کھانے کے لئے ایک متوزن اور معیاری غذائیت کا کھانا اور غذائی سپلیمنٹس پر مبنی ہونا لازمی ہے کیونکہ بچے کی عمر کے پہلے دو سال پہلے بچے کے ساتھ پیدا ہونے والی کسی بھی غذائیت یا کمی کو ریوس کرنے کا بہترین وقت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بچوں میں غذائیت کی کمی اگر ان کی عمر کے ابتدائی برسوں میں رہتی ہے اور انہیں مناسب غذائیت تک رسائی حاصل نہیں ہوتی تو اس کو دور نہیں کیا جا سکتا۔ بچوں کے صحت مند مستقبل کے لئے انہیں خاص طور پرزندگی کے ابتدائی سالوں میں مقوی خوراک دی جانی چاہئے۔

Browse More Ghiza Aur Sehat