Cholesterol - Article No. 1514

Cholesterol

کولیسٹرول۔نوعیت،اہمیت اور نقصانات - تحریر نمبر 1514

انسانی جسم میں ساری چیزیں تناسب وتوازن میں ہونی چاہییں۔اگر یہ توازن بگڑ جائے تو ہمیں کوئی نہ کوئی بیماری لا حق ہو جاتی ہے ۔اسی میں کولیسٹرول بھی شامل ہے۔کولیسٹرول کا دل،جگر اور گردوں کی بیماریوں سے گہرا تعلق ہے

جمعرات 14 مارچ 2019

محمد زاہد ایوبی
انسانی جسم میں ساری چیزیں تناسب وتوازن میں ہونی چاہییں۔اگر یہ توازن بگڑ جائے تو ہمیں کوئی نہ کوئی بیماری لا حق ہو جاتی ہے ۔اسی میں کولیسٹرول بھی شامل ہے۔کولیسٹرول کا دل،جگر اور گردوں کی بیماریوں سے گہرا تعلق ہے ۔اس کے علاوہ بلڈ پریشر اور بالواسطہ طور پر ذیابیطس سے بھی اس کا تعلق ہے۔چناں چہ جن افراد کا کولیسٹرول بڑھ جاتا ہے یا خون میں شکر قابو میں نہ رہے تو انھیں امراضِ قلب ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔


پاکستان وہندستان میں روغنی کھانوں کا رواج زیادہ ہے ،اس لیے عالمی ادارئہ صحت کے اعداد وشمار کے مطابق 37فی صد مردوں اور 40فی صد خواتین میں کولیسٹرول اپنی حد سے بڑھا ہوا ہے ۔ہر سال 26لاکھ افراد کو لیسٹرول کے باعث موت کا شکار اور 2کروڑ 97لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)


ادارے کا کہنا ہے کہ اگر 40برس سے زیادہ کے مرد اپنے کولیسٹرول کی سطح 10فی صد کم کرلیں تو ان کے امراض کی شرح میں 5فی صد کمی آسکتی ہے ۔


کو لیسٹرول ایک قسم کی چربی ہے ،جو حیوانات میں پائی جاتی ہے ۔ہمارا جگر سے سیال مادّے کی صورت میں پیدا کرتا ہے ۔ہم اسے حیوانی ذرائع سے بھی حاصل کرتے ہیں ،مثلاً انڈا،گوشت اور دودھ وغیرہ ۔
اس کے برعکس یہ سبزیوں ،پھلوں اور غلے میں نہیں پایا جاتا۔
یہ ہارمونوں اور حیاتین کو تیار کرنے میں مدد دیتا اور خلیوں کے گرد جھلی کو برقرار رکھتا ہے ۔
حقیقت میں کولیسٹرول چربیوں ( LIPDS)کی ایک قسم ہے۔ایسی چربیاں ہمارے سارے جسم میں پائی جاتی ہیں ۔کولیسٹرول خون میں تنہا نہیں دوڑ سکتا ،لہٰذا چربیوں کو لحمیات (پروٹینز)کے ساتھ مل کر چلنا پڑتا ہے ۔ان کے باہم ملنے سے چربیلی لحمیات (لائپو پروٹینز)بنتی ہیں۔
چربیلی لحمیات کی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔اول قسم ایچ ڈی ایل (HIGH DENSITY LIPOPROTEIN)،جسے اچھا کولیسٹرول کہتے ہیں ۔
اس کی دوسری قسم ایل ڈی ایل(LOW LIPOPROTEIN DENSITY)ہے ،اسے خراب کو لیسٹرول کہتے ہیں ۔اچھا کولیسٹرول جسم میں ایک تہائی یا چوتھائی ہوتا ہے ،جو خراب کولیسٹرول کو سارے جسم سے کھینچ کر جگر میں لے آتا ہے ،
جہاں سے اسے جسم سے خارج کر دیا جاتا ہے ۔ایل ڈی ایل حال آنکہ خراب کو لیسٹرول ہے ،لیکن اس کے باوجود جسم کے لیے ضروری ہے ،اس لیے کہ اس میں ہارمون بنتے ہیں ،مگر اس کی مقدار جسم میں ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو یہ شریانوں میں جمع ہو کر جم جاتا ہے ۔

شریانیں تنگ ہونے سے خون کے بہاؤ میں روانی متاثر ہو جاتی ہے ۔اگر دل کی طرف جانے والی شریانیں(کارونری آرٹریز)متاثر ہوتی ہیں تو حملہ قلب کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے ۔اسی طرح سے اگر دماغ کو خون پہنچا نے والی شریانیں تنگ ہو جائیں تو انسان فالج میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔اگر کولیسٹرول بڑھنے لگے تو جسم پر کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی ،البتہ آنکھوں کے گرد اور کہنیوں پر دھبے سے بن جاتے ہیں ۔
خون کا نمونہ لے کر س کا لیبارٹری میں معائنہ کیا جاتا ہے ۔اگر بہتر نتیجہ حاصل کرنا ہوتو خون کانمونہ لینے سے آٹھ گھنٹے پہلے کچھ نہ کھایا پیا جائے ۔
کولیسٹرول کے ذیل میں ہم افراد کو تین گروپوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:ان میں پہلا گروپ وہ ہے جن کے خاندان میں دل کی بیماریوں ،ذیابیطس ،جگر یا ہائی بلڈ پریشر کے امراض نہیں ہیں ۔ان کی عمریں بھی 50برس سے زیادہ نہیں ہیں ۔
ان میں کوئی فربہ نہیں ہے اور نہ تمبا کو نوشی کرتا ہے ۔ان افراد کا کولیسٹرول 600سے کم ہونا چاہیے۔دوسرا گروپ وہ ہے ،جن پر کبھی حملہ قلب نہیں ہوا ،لیکن ان میں وہ خطر ناک عوامل ہیں جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ،ان کا کولیسٹرول160سے کم ہونا چاہیے۔تیسرے گروپ میں وہ افراد شامل ہیں ،جنھیں درج بالا بیماریوں میں سے کچھ لاحق ہو چکی ہوں ،ان کا کولیسٹرول 130سے کم ہونا چاہیے جن افراد پرحملہ قلب ہو چکا ہو اور انھیں ذیابیطس بھی ہو،ان کا کولیسٹرول 70تک ہونا چاہیے۔

کولیسٹرول بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ چکنائی والی چیزوں کا کھانا ہے ۔ایک امریکی تنظیم کا کہنا ہے کہ ہمیں روزانہ 300ملی گرام سے زیادہ کولیسٹرول والی چیزیں نہیں کھانی چاہییں۔ہمارے مجموعی حراروں (کیلوریز)کا30فی صد چکنائی سے آتا ہے ۔اس میں بھی سیر شدہ چکنائی(SATURATED FAT)10ٰ ٰ فی صد سے کم ہونا چاہیے۔اس کے علاوہ تمبا کو نوشی ،ورزش کی کمی اور ذہنی پریشانی کے باعث بھی کولیسٹرول میں اضافہ ہو جاتا ہے ،لہٰذا ان سے بچیے۔

جہاں تک نوجوانوں کی سر گر میوں کا تعلق ہے ،وہ انتہائی محدود ہو کررہ گئی ہیں ۔اب وہ صرف ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں ،جس میں صرف ان کی انگلیاں حرکت کرتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انھیں امراض قلب اور فالج ہونے کا خدشہ پرانی نسل کی نسبت زیادہ ہے ۔ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ہمیں ہفتے میں5روز30منٹ تک چہل قدمی یا جاگنگ کرنا چاہیے ،اس کے علاوہ پیرا کی اور ہلکی ورزش کرنا بھی مناسب ہے ۔
اسی طرح سے خواتین کو بھی فربہی سے نجات پانے کی تلقین کرتے رہنا چاہیے،اس لیے کہ ان میں مٹاپے کی وجہ سے امراض قلب ،ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کی بیماریوں پھیل رہی ہیں ۔مرد ہویا عورت ،اسے اپنے وزن پر قابو رکھنا چاہیے۔جن افراد کا بلڈ پریشر نارمل ہو ،انھیں کولیسٹرول حاصل کرنے کے لیے صرف ایک انڈا کافی ہے۔
یہ ثابت ہونے کی صورت میں کہ آپ کا کولیسٹرول بڑھا ہوا ہے ،انڈے کی زردی نہیں کھانی چاہیے ۔
اگر آپ کم حراروں والا کھانا کھائیں اور پابندی سے ورزش کرتے رہیں تو اچھا کو لیسٹرول بڑھے گا اور خراب کولیسٹرول کم ہو جائے گا۔مونگ پھلی اور بادام ہفتے میں دو تین بار کھانے میں کوئی حرج نہیں ،اس لیے کہ ان میں اچھی چکنائی ہوتی ہے جو اچھا کولیسٹرول بڑھاتی ہے۔
کولیسٹرول کو قابو میں رکھنے کے لیے گھی ،گائے کا گوشت ،روغنی اشیا ،بالائی ،مکھن اور پنیر سے پر ہیز کریں ۔
زیتون کا تیل ،مچھلی کا تیل اور خشک میوہ کم مقدار میں کھایا جا سکتاہے ۔سبزیاں ،پھل اور دالیں زیادہ سے زیادہ کھائیں ،ان سے آپ کا وزن کم ہوسکتا ہے۔سلاد کھا کر بھی وزن کم کیا جا سکتا ہے۔کھانے کی ابتداسلاد سے کریں ۔جب اس سے پیٹ خوب بھر جائے تو اس کے بعد کھانا کھائیں ۔
کھانے میں ریشے دار غذائیں زیادہ کھایا کریں ،اس سے کولیسٹرول لپٹ کر باہر آجاتا ہے ۔
فاسٹ فوڈز(الم غلم غذائیں)کھانا ہمارے ہاں فیشن بن چکا ہے ۔ٹیلی ویژن پر ان کے اشتہارات بھی خوب دکھائے جاتے ہیں۔حال آنکہ ان سے کولیسٹرول میں اضافہ ہوتا ہے ۔مائیں اپنے نو نہالوں کو ایسی غذائیں شوق سے کھلاتی ہیں ،جب کہ انھیں اجتناب کرنا چاہیے۔

Browse More Ghiza Aur Sehat