Hing - Khobiyon Se Bharpor Masala - Article No. 2441

Hing - Khobiyon Se Bharpor Masala

ہینگ ۔ خوبیوں سے بھرپور مسالا - تحریر نمبر 2441

اسے نہ صرف طبی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا تھا،بلکہ مختلف قسم کی غذاؤں میں بھی شامل کیا جاتا تھا

منگل 17 مئی 2022

نسرین شاہین
ہینگ ایک عام مسالا ہے،جسے پاکستان و ہندوستان کے گھروں میں صدیوں سے کھانوں میں شامل کیا جاتا رہا ہے اور بعض گھرانوں میں آج بھی اسے کھانوں میں ڈالا جاتا ہے۔اس شاندار اور نہایت عمدہ و مفید مسالے کی دریافت اور اس کے کھانوں میں شمولیت کے آغاز کی تاریخ ماضی بعید کے دھندلکوں میں پوشیدہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس جادو اثر اور طلسماتی شے کی اصلیت،اہمیت و افادیت کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
ہینگ ایران اور افغانستان سے آتی ہے۔
قدیم ادوار میں بھی ہینگ کی زبردست خوبیوں کا اعتراف کیا جاتا رہا ہے۔پاکستان و ہندوستان کے علاوہ دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں بھی اسے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔عرب ممالک اور ایران میں بھی اسے کئی قسم کے پکوانوں میں شامل کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

فرانس میں اس کی بہت مانگ ہے،جہاں اسے ایک غذائی جزو کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

جنوبی امریکا کے لوگ اسے سفوف کی شکل میں کھانوں میں اوپر سے چھڑکتے ہیں،جس سے کھانوں کی لذت اور ذائقے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔یہ جنوبی ہندوستان میں ایک مقبول عام غذائی جزو کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ہینگ کو ادویہ میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔اسے غذائی اشیاء اور ادویہ میں سب سے پہلے کس نے اور کیسے استعمال کیا،اس کا علم تو نہیں ہے،تاہم اتنا علم ضرور ہے کہ انسانی تہذیب کے آغاز سے ہی ہینگ کو بڑی اہمیت دی جاتی رہی ہے اور اسے مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
اس طلسماتی شے کے طبی استعمال کے بارے میں ہمیں پانچویں صدی عیسوی کی بعض تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ اُس زمانے کے لوگ بھی ہینگ سے واقف تھے اور دسویں صدی عیسوی میں بلوچستان میں اس کے عام استعمال کا پتا چلتا ہے۔اسے نہ صرف طبی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا تھا،بلکہ مختلف قسم کی غذاؤں میں بھی شامل کیا جاتا تھا۔
ہینگ کا پودا
ہینگ ایک قسم کا خشک گوند ہے۔
یہ گوند ایک پودے سے نکلتا ہے،جس کا تعلق گاجر کے خاندان سے ہے۔یہ پودا ایک بڑی سی بُوٹی کی شکل کا ہوتا ہے۔جب اس پودے میں پھول اور پھل نکل آتے ہیں تو اس کے بعد یہ مر جاتا ہے۔یہ پودا تقریباً 3 میٹر بلند ہوتا ہے۔اس کی سبز شاخوں کو بعض اوقات سبزی کے طور پر بھی کھایا جاتا ہے۔ہینگ کا 4 سالہ پودا بھاری بھرکم جڑ والا ہوتا ہے۔اس کی موٹی جڑ ہی سے اصلی ہینگ حاصل کی جاتی ہے۔
موسم گرما کے شروع ہوتے ہی پودے کی جڑ میں نیچے کی طرف ایک شگاف لگا کر اسے پتوں سے ڈھانپ دیا جاتا ہے،تاکہ وہ سورج کی تپش سے محفوظ رہے۔اس عمل کے 40 دن کے بعد جڑ کے اُسی حصے کو ایک تیز چھری یا چاقو سے گودا جاتا ہے۔پھر اس میں سے سفید رنگ کا رس ٹپکنے لگتا ہے۔اس کی ان سفید بوندوں یا رس کو جمع کر لیا جاتا ہے۔اس کے بعد جڑ کو ہر دو تین دن کے بعد چھیلا جاتا اور اس میں سے گوند نکالا جاتا ہے۔
پھر جڑ کو نئے سرے سے کاٹ دیا جاتا ہے اور اگلے تین ماہ اس سے گوند نکالنے کا عمل جاری رہتا ہے۔رس کو چھوٹے چھوٹے پیالوں میں بھر لیا جاتا ہے،پھر اسے ایک بڑے برتن میں جمع کر لیا جاتا ہے۔جب یہ رس رفتہ رفتہ خشک ہو کر سخت ہو جاتا ہے تو اسے مختلف کھانوں میں ڈالا جاتا ہے اور دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ہینگ کا پودا زیادہ تر مشرقی ایران،افغانستان،کشمیر اور نیپال کے قریب بعض علاقوں میں بھی اُگتا ہے۔
ممبئی میں سب سے زیادہ ہینگ درآمد کی جاتی ہے۔
ہینگ کی قسمیں
ہینگ کی درجہ بندی ان ممالک کے لحاظ سے کی جاتی ہے،جہاں سے اسے حاصل کیا جاتا ہے۔ایرانی ہینگ کی دو اقسام ہیں،جنہیں ”ایرانی رس“ اور ”ایرانی خاور“ کہا جاتا ہے۔افغانستان سے درآمد شدہ ہینگ کی کئی اقسام ہیں،مثلاً ہڈا،گالمین،نیاز امین،قندھاری اور شان بندی وغیرہ۔
ہینگ کی یہ تمام اقسام اپنی تاثیر اور بُو کی شدت کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں۔ہڈا ہینگ خاص طور پر بہت تیز بُو والی ہوتی ہے۔باہر سے حاصل کردہ ہینگ میں مختلف جڑوں کی آمیزش کی جاتی ہے۔اس میں گیہوں اور مکئی کا آٹا وغیرہ بھی شامل کیا جاتا ہے۔پھر اسے چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں بند کرکے مختلف تجارتی ناموں سے فروخت کر دیا جاتا ہے۔ایک اور قسم ”بندھانی ہینگ“ مرکب کی شکل میں ہوتی ہے۔
اس کی مختلف قسمیں تیار کی جاتی ہیں اور ہر قسم کی بُو کی تیزی مختلف ہوتی ہے۔بندھانی ہینگ کی تیاری ایک ایسا راز ہے،جو صرف چند خاندانوں تک ہی محدود ہے،جو اس راز کی پوری طرح سے حفاظت کرتے ہیں۔
عام طور سے ہینگ مختلف جسامت کے ٹکڑوں میں دستیاب ہوتی ہے۔ہینگ کی عام طور پر دستیاب قسم کو قندھاری ہینگ کہتے ہیں،جو سب سے بہترین مانی جاتی ہے۔
بازار میں عام طور پر دو قسم کی ہینگ دستیاب ہوتی ہے۔ان میں سے ایک سفید قسم کی ہینگ ہوتی ہے،جو پانی میں بہ آسانی حل ہو جاتی ہے،جب کہ دوسری قسم کالے رنگ کی ہوتی ہے،جو تیل میں حل ہوتی ہے۔ان دونوں قسموں میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ایک میں گوند کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور دوسری قسم میں رس زیادہ ہوتا ہے۔بنیادی طور پر ہینگ ایک اُڑ جانے والے تیل،رس اور گوند کا مرکب ہے۔
یہ اجزاء اس میں مختلف تناسب میں پائے جاتے ہیں۔اُڑ جانے والے تیل میں ایک خاص قسم کی بُو ہوتی ہے،جو اس میں موجود گندھک (سلفر) کے اجزاء کے باعث ہوتی ہے۔
لہسن اور پیاز میں بھی ایسے مرکبات پائے جاتے ہیں،جو تقریباً ہینگ میں پائے جانے والے مرکبات جیسے ہی ہوتے ہیں۔ہینگ جب تازہ ہوتی ہے تو اس کا رنگ موتی جیسا سفید ہوتا ہے،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کی رنگت میں رفتہ رفتہ تبدیلی آنے لگتی ہے اور اس کی رنگت گہری ہونے لگتی ہے۔
پہلے یہ گلابی ہوتی ہے،پھر سرخی مائل بھوری اور آخر میں پوری بھوری ہو جاتی ہے۔ٹھنڈی حالت میں یہ سخت ہوتی ہے،لیکن جب اس کو گرم کیا جائے تو یہ پگھلنے لگتی ہے اور گوند کی طرح ہو جاتی ہے۔ہینگ میں بہت خاص قسم کی بُو ہوتی ہے،جس کی وجہ سے اسے بہ آسانی پہچان لیا جاتا ہے۔اس کی بُو بہت تیز ہوتی ہے،جو بہت سے لوگوں کو ناگوار گزرتی ہے،لیکن جو لوگ بچپن سے ہی ہینگ ملے کھانے کھاتے ہیں یا جن گھروں میں اسے مستقل طور پر رکھا اور استعمال کیا جاتا ہے،اُن کو اس کی بُو اتنی ناگوار نہیں گزرتی۔
بعض لوگوں کے عقیدے کے مطابق اگر کوئی فرد ہینگ کی ایک چھوٹی سی تھیلی بنا کر اور اسے ایک ڈوری سے باندھ کر گلے میں پہن لے تو بیماریاں اُس سے دور بھاگتی ہیں اور وہ صحت مند اور چاق چوبند رہتا ہے۔ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ ہینگ کو طویل عرصے تک کھانے والا فرد زندگی میں کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔مذکورہ عقائد سے قطع نظر ہینگ بہرحال ایک ایسا منفرد مسالا ہے،جس میں معالجاتی خصوصیات بہت زیادہ ہوتی ہیں اور ہندوستان میں تو اسے دمے اور ہسٹیریا کے علاج میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ہینگ تنفس اور اعصاب کے نظام کو بھی تقویت پہنچاتی ہے۔ہینگ کی ایک قسم ”ہنگرا“ کہلاتی ہے،جسے یورپ میں زیادہ تر ایک ٹنکچر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔اپنے گھروں میں پکنے والے پکوانوں میں کبھی کبھار ہینگ بھی شامل کیجیے۔

Browse More Ghiza Aur Sehat