Matwazan Ghaza Ki Talash - Article No. 2019

Matwazan Ghaza Ki Talash

متوازن غذا کی تلاش - تحریر نمبر 2019

گزشتہ عشروں میں غذاؤں میں تبدیلیاں اس طرح دبے پاؤں آئی ہیں کہ اکثر لوگوں کو اس کا شعور و ادراک ہی نہیں کہ ان کی غذائیں کیا سے کیا ہو گئی ہیں

ہفتہ 28 نومبر 2020

پروفیسر ڈاکٹر سید اسلم
گزشتہ عشروں میں غذاؤں میں تبدیلیاں اس طرح دبے پاؤں آئی ہیں کہ اکثر لوگوں کو اس کا شعور و ادراک ہی نہیں کہ ان کی غذائیں کیا سے کیا ہو گئی ہیں۔اس زمانے کی مقبول عام غذائیں کڑھائی گوشت،سیخ کباب،تکے،پلاؤ،بریانی،قورمہ،حلیم،نہاری،حلوے،مربے، زردہ،کیک پیسٹری،شاہی ٹکڑے،چاکلیٹ،شربت،ٹافیاں،برف ملائی(آئس کریم)،ملائم،سربند پنیر،سر بند دلیے،ڈبا بند اشیاء اور تلے ہوئے آلو کے قتلے ہیں۔
ان غذاؤں میں چکنائی،چینی اور نمک کی کثرت ہوتی ہے،جو غیر ضروری ہے۔
ہر چند کی مغربی دنیا میں خصوصاً اور مشرقی دنیا میں عموماً بغیر چھنے آٹے کی روٹی اور چھلکے دار اناج کھانے کا رجحان بڑھا ہے،مگر ڈبا بند اشیا،کیک ،پیسٹری اور آلو کے قتلوں کا رواج بھی بڑھا ہے،جو نامناسب ہے۔

(جاری ہے)

شکر کا کھانا بھی اب زیادہ ہے۔یہ عجیب تضاد ہے کہ لوگ چائے اور کافی وغیرہ میں تو کم شکر ڈال رہے ہیں،مگر شکر آمیز غذاؤں اور مشروبات کی طلب زیادہ بڑھ رہی ہے۔

کولا مشروب کے ایک گلاس میں 9 چائے کے چمچے شکر ہوتی ہے۔کولا مشروبات نے تمام اقوام مشرق کو جس طرح غرقاب کرنا شروع کیا ہے،وہ اب روز کا تماشا ہے۔کوک وغیرہ کے مصنوعی رنگ،مصنوعی خوشبو،تیزاب،کیفین اور بعض دیگر اشیا جسم کی اندرونی کیمیا کو متاثر کر رہی ہیں۔یہ نہ صرف ضروری مغزیات سے تہی ہوتی ہیں،بلکہ بھوک اُڑا کر غذائی قلت میں بھی مبتلا کر دیتی ہیں۔
لوگ روایتی مشروبات،یعنی لسی،پھلوں کے رس اور سکنج بین کے بجائے شکر یا مصنوعی شکر اور محرک کیفین سے بھرپور کولا مشروبات زہر مار کر رہے ہیں،لہٰذا وہ پھلوں کے رس کے معجزاتی فائدوں اور ضروری حیاتین سے محروم رہتے ہیں۔
آج کل جدید غذاؤں سے ضروری غذائی اجزاء کی قلت سے نئے امراض جنم لے رہے ہیں،جیسے امریکی نوجوانوں میں بھُربھُری ہڈیاں اور ان کے ٹوٹنے کے بہ کثرت واقعات۔
دودھ پینے کی عادت عام طور پر کم ہوئی ہے،مگر دودھ اور اس کے متعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔ڈبا بند غذاؤں کے غیر ضروری حرارے(کیلوریز)فربہی کا باعث بن جاتے ہیں۔گوشت نے بھی اب غذا میں شریک غالب کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔حالیہ زمانے میں بیرونی ممالک کی گوشت والی غذاؤں کے جو نئے ریستوراں کھل رہے ہیں،وہ آئندہ جو منظر دکھائیں گے،وہ امراض جدید کی فصلیں ہوں گی۔

صحت و مرض صرف اتفاقات میں سے نہیں،ان کا انحصار غذا کے انتخاب پر بھی ہے۔غذائیت پر لاعلمی کے علاوہ اس لئے بھی عمل نہیں ہوتا کہ ہم غذا کے انتخاب میں فائدے سے زیادہ پسندیدگی کے قائل ہیں۔کچھ عادت سے مجبور،کچھ شوق سے مغلوب اور کچھ زمانے کی روش سے مرعوب ہو کر ہم وہ غذائیں کھاتے ہیں،جو کام و دہن کو لطف دیتی ہیں یعنی زیادہ شیریں،زیادہ نمکین،زیادہ روغنی،زیادہ چٹ پٹی اور زیادہ صاف شدہ اور ہم ان غذاؤں کے اس طرح عادی ہو گئے ہیں،جس طرح نشہ باز نشے کے ہو جاتے ہیں۔

یہ عادتیں بچپن ہی سے ڈالی جاتی ہیں،بلکہ پیدائش کے بعد روز اول ہی سے،جب نومولود کو ماں سے حاصل ہونے والے گاڑھے دودھ کے بجائے گھٹی دی جاتی ہے،جس میں 50 فیصد تک چینی ہوتی ہے۔
کھانے کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی مزاج و عادت کی بات ہے،جو بچپن میں شروع ہو کر ہمیشہ کے لئے ذہن میں جاگزیں ہو جاتی ہیں۔ان عادتوں میں گھر والوں کے خیالات کا اثر وعکس بھی ہوتا ہے۔
یہ عادتیں مختلف زبانوں یا بولیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ جس طرح مختلف بولیوں سے مختلف خیالات و ثقافت کا اظہار ہوتا ہے،اسی طرح مختلف غذاؤں سے ضروری مغزیات کی فراہمی کے علاوہ اپنے رسم و رواج کا اظہار بھی ہو سکتا ہے۔
غذا کی پسند ناپسند میں بچپن کی یادوں کا بھی اثر ہوتا ہے۔اگر کسی کھانے کے دوران ناگواری یا تلخی پیدا ہو جائے اور یہ ناگواری جو اوائل عمر میں واقع ہوئی تھی۔
فراموش بھی ہو جائے تب بھی اس کھانے سے جو بیزاری اس وقت ہوئی تھی،وہ ہمیشہ باقی رہتی ہے۔خاندانی دعوتیں، کاروباری ضیافتیں،احباب کے ساتھ خورونوش کی محفلیں اور پکنک کے مواقع پر غیر فطری غذائیں ذوق و شوق سے کھائی جاتی ہیں۔ غذاؤں کے سحر انگیز اشتہارات بھی اپنا اسیر کر لیتے ہیں۔
مغزیات کی ضرورت غذا میں موجود دیگر مغزیات پر بھی منحصر ہے۔
جب غذا میں ”فائی ٹیٹ“ (PHYTATE) نامی جزو،جو بھوسی میں ہوتا ہے،زیادہ ہو تو کیلسیئم کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔زیادہ جمنے والی چکنائی کھانے سے حیاتین ھ (وٹامن ای) کی ضرورت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔خون میں کولیسٹرول بڑھ جاتا ہے،فالج اور عارضہ رگ دل وغیرہ کی بنیاد پڑتی ہے۔مرض سرطان کا تعلق بھی زیادہ چکنائی کھانے سے ہے۔بہ کثرت نمک خوری کی عادت فشار خون،امکان فالج اور سرطان معدہ میں اضافہ کرتی ہے۔
اگر غذا میں شکر زیادہ ہو تو لحمیات (پروٹینز) کی ضرورت بھی زیادہ ہو جاتی ہے،جو جسم کو نہ ملے تو نقاہت ہوتی ہے۔غذا کی مقدار زیادہ ہو تو فربہی اور دیگر امراض کا خطرہ ہوتا ہے۔
ہماری غذا کو مصنوعی طریقوں سے بھی خراب کر دیا گیا ہے۔آج کل غذاؤں میں اس قدر ملاوٹ ہو رہی ہے،جتنی تاریخ کے کسی دور میں نہیں ہوئی تھی۔اب ان غذاؤں سے ضروری مغزیات حاصل کرنا دشوار ہو گیا ہے۔
مستقبل میں جو غذائیں دستیاب ہوں گی،اُن کے تصور ہی سے وحشت ہوتی ہے۔ماضی میں جو بچے اپنی ماؤں کی نرم وگداز چھاتیوں کو منہ میں لینے کے مشتاق تھے،اب ان کے ننھے منے منہ میں سخت اور ٹھنڈے نپل (بوتلوں) ٹھونسے جا رہے ہیں۔ان کو ڈبوں کی وہ غذائیں اور وہ دودھ دئیے جا رہے ہیں،جن میں نمک،چینی اور چکنائی کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے اور جس کا نتیجہ سوائے علالت کے اور کیا ہو گا۔

خراب غذا ضروری نہیں کہ صرف غریبوں کا ہی مقسوم ہو اور تمام امیر لوگوں کو صحیح غذا حاصل ہو۔بازار کی تیار شدہ چٹ پٹی اور روغنی غذاؤں کو ہم نے اپنی سب سے بڑی ضرورت بنا لیا ہے۔اس لئے بھی یہ تیزی سے رائج ہوتی جا رہی ہیں،کیونکہ لوگوں کے پاس وقت کم اور پیسہ زیادہ ہے۔کم فرصتی کے سبب سے بازاری غذا واقعی ضرورت بن گئی ہے۔خواتین بھی باہر کام پر جارہی ہیں۔
پکی پکائی غذائیں کھانے سے خواتین میں نفسیاتی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ان کو ایک طرح سے احساس جرم ہو رہا ہے کہ کھانا پکانے کا جو کام ان کو کرنا چاہیے،وہ نہیں کر رہی ہیں۔
چونکہ بازاری غذائیں متوازن نہیں ہوتیں اور مغزیات سے تہی ہوتی ہیں،اس لئے ان کو مستقلاً کھانا مناسب نہیں۔اگر حیوانوں کو بھی صرف یکساں،یعنی غیر متنوع غذا دی جائے تو وہ کچھ عرصے بعد بیمار ہو کر مر جاتے ہیں۔
صحیح غذا کے انتخاب اور دستیابی میں یہ دشواری بھی ہے کہ متوازن غذا کے متعلق معلومات نامکمل ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ صحت وتندرستی کی خاطر گوشت،انڈوں اور دودھ پر زیادہ زور دیا جاتا تھا اور وزن کم کرنے کے لئے روٹی،چاول اور آلو کم کھانے کا مشورہ دیا جاتا تھا،جو صحیح نہیں تھا،اس لئے کہ علم ہر لمحہ ایک بڑھنے والا عمل ہے۔اب غذا کے متعلق معلومات میں اضافے سے ذیابیطس کے مریضوں کے لئے چکنائی والی غذا،خصوصاً جمنے والی چکنائی جو حیوانی غذاؤں میں بالعموم ہوتی ہے،مضر ثابت ہو رہی ہے۔
اس کے برعکس بھوسی ملے آٹے کی روٹی،چاول اور آلو اپنے نشاستے اور ریشے کی فیض سے مضر نہیں، بلکہ مفید ہیں۔
حصول غذا کی مشکلات کی وجہ سے ہم جال کے پھندے میں پھنس گئے ہیں اور پھندے میں پھنسے ہوئے پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہے ہیں۔آخر وہ کون سی غذا ہے جسے صحیح کہا جائے،خصوصاً اس اشتہار بازی کے زمانے میں کہ جب روز اشتہار کے زیر اثر ہر غذا پر یہ یقین آنے لگتا ہے کہ یہی غذا دراصل صحت بخش غذا ہے۔

اچھی یا بُری غذا
اچھی غذائیت کا صرف یہی مطلب نہیں کہ کسی خاص غذا کی حقیقی یا فرضی اہمیت کو جتایا جائے۔غذائیات ان تمام عادات طعال کا نام بھی نہیں ،جو آپ کو پسند ہوں۔غذا کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے آپ کے دسترخوان پر کھانا آجائے۔غذائی قلت بالعموم صرف ایک شے کی نہیں ہوتی،بلکہ مختلف اشیا کی قلت ہوتی ہے اور انتخاب غذا میں علمی روشنی اور علمی رہ نمائی ضروری ہے۔

بہرکیف یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ فی زمانہ غذائی رہ نمائی کے نہایت آسان اور اصول و قواعد دستیاب ہیں،جن کے مطابق ہر شخص تندرست و صحت مند رہنے کے لئے صحیح غذا کا انتخاب کر سکتا ہے۔ایسی غذا کی تلاش مشکل نہیں،جو نہ اس قدر گراں ہو کہ لوگوں کی دسترس سے باہر ہو،نہ یہ ولایت سے درآمدہ ہو،نہ یہ مغرب کی نقل ہو ،نہ جس میں کوئی اشتہار بازی ہو اور یہ ہماری روایات سے بھی پیوستہ ہو۔
دراصل غذائی افادیت سے واقفیت کے لئے گنجینہ معلومات ضروری ہے،جو ہر وقت دستیاب رہے۔بعض غذاؤں کی فائدہ رسانی تجربے سے بھی ثابت ہو جاتی ہے،جیسے بھوسی دار غذا سے قبض میں مبتلا افراد کو فائدہ ہوتا ہے۔
غذا سے توانائی اور مغزیات (لحمیات،کار بیدہ،روغنیات،معدنیات و حیاتین)حاصل ہوتے ہیں۔لحمیات سے آٹھ سے دس ضروری امینو ترشے (AMINO ACIDS)، روغنیات سے ضروری روغنی ترشے،مثلاً لینولیئک ایسڈ (LINOLEIC ACID) ملتے ہیں۔
حیاتین کی اب تک معلوم تعداد 13 ہے۔معدنیات و عناصر 18 ہیں۔ان کے علاوہ اوکسیجن،ہائیڈروجن،نائٹروجن اور کاربن بھی ہیں،جو سب مل کر 40 ہو جاتے ہیں اور مختلف آمیزوں میں دستیاب ہیں۔مکمل و متوازن غذا کھانے سے یہ آپ سے آپ حاصل ہو جائیں گے۔
ریشہ یا پودوں کا اُوپری پرت بھی بے مصرف نہیں ہوتا۔اس سے فضلے کی مقدار بڑھتی ہے،آنتوں میں غذا کا سفر تیز ہوتا ہے۔غذا میں اس کی موجودگی سے شکر و چکنائی کا انجذاب آہستہ و ہموار ہوتا ہے،خون میں شکر معمول کے مطابق رہتی ہے اور خون کی روغنیات میں اعتدال آتا ہے۔سرطان کا مرض،خصوصاً بڑی آنت کے سرطان سے تحفظ ملتا ہے۔

Browse More Ghiza Aur Sehat