Nabaz Chup Nahi Rehti - Article No. 1469

Nabaz Chup Nahi Rehti

نبض چپ نہیں رہتی - تحریر نمبر 1469

پہلے زمانے میں نبض ہی ذریعہ تشخیص تھی اور امراض کے جان لینے کا انحصار اسی پر کیا جاتا تھا ۔بڑے پائے کے نباض آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں

منگل 22 جنوری 2019

محمد عثمان حمید
نبض عجیب شے ہے ،یہ چپ نہیں رہتی ،بلکہ سب کچھ کہہ دیتی ہے ۔نبض کے ذریعے نباض جسم کو پوشیدہ بیماریوں کے اسباب وعلامات ،ان کے خراب اثرات اور ان سے نجات کے لیے علاج جان لیتے ہیں ۔
نبض پر نباض کی انگلیاں رکھنے کی دیر ہوتی ہے ،وہ انسانی وجود میں پلنے والے مرض کی داستان سنا دیتی ہے ۔سائنس نے امراض کی تشخیص کے لیے جتنی بھی ایجادات کی ہیں ،مثلاً بیش قیمت مشینیں اور آلات ،ان سب کی ساخت نبض کی اساس پر ہے ۔

آج کل ہم معالج کی ہدایت پر مختلف امراض کی تشخیص کے لیے بہت سے ٹیسٹ کرواتے ہیں ۔پھر معالج کو ان کی رپورٹ پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ مریض فلاں مرض میں مبتلا ہے ۔اس کے بعد وہ علاج اور ادویہ تجویز کرتے ہیں ۔
پہلے زمانے میں نبض ہی ذریعہ تشخیص تھی اور امراض کے جان لینے کا انحصار اسی پر کیا جاتا تھا ۔

(جاری ہے)

بڑے پائے کے نباض آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں اور ہم ان کی علمیت اور مہارت کے بارے میں پڑھ کر حیران ہوتے ہیں ۔

ڈاکٹر جو صدر بین آلہ(STETHOSCOPE) استعمال کرتے ہیں ،وہ بھی نبض ہی کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ صدر بین آلہ بھی انسانی دل کی دھڑکنوں کو معالج کے کانوں تک پہنچا تا ہے ،جس طرح نبض سے دھڑکنوں کا پتا چلتا ہے ۔دھڑکن کی آہنگ اور زیر وبم سے معالج مرض کی تہ تک پہنچ جاتا ہے ۔
بھیرہ کے ایک معروف حکیم نورالدین اپنے زمانے کے ایک حاذق طبیب تھے ،وہ اس دور کے شاہی طبیب تھے ۔
بادشاہوں ،راجوں اور مہاراجوں کا علاج کرنا ان کی ذمے داریوں میں شامل تھا،تاہم وہ حرم شاہی کی پردہ دار خواتین کی نبض اس طرح دیکھا کرتے تھے کہ ان کی کلائی دھاگے کے ایک سرے سے بند ھی ہوتی تھی اور اس کا دوسرا سرا حکیم نور الدین کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور وہ اپنی حکمت اور مشاقی سے مریضہ کی نبض کی کہانی بیان کردیا کرتے تھے ۔حکیم نور الدین کی شہرت کابل کے بادشاہ تک بھی جا پہنچی ۔

کابل کے بادشاہ نے اس حاذق طبیب کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا اور انھیں بلوا کر شاہی مہمان خانے میں ٹھیرا یا۔ایک دو روز بعد حکیم صاحب کو مطلع کیا گیا کہ حرم شاہی کی ایک پردے دار خاتون صاحبِ فراش ہیں ،ان کی نبض دیکھ کر آپ کو مرض کی تشخیص کرنی ہے ۔پردے دار خاتون چوں کہ سامنے نہیں آسکتی تھیں ،لہٰذا دھاگے کی مدد سے ان کی نبض دیکھنی تھی ۔
حکیم نور الدین کے لیے یہ تجربہ نیا نہیں تھا ،اس لیے انھوں نے فوراًحامی بھر لی ۔
بادشاہ نے اپنے وزرا اور دربار یوں کے ساتھ مل کر جو منصوبہ بنایا تھا ،اس کے مطابق دھاگے کا ایک سرا خاتون کی کلائی کے بجائے ایک بلی کی ٹانگ سے باندھ دیا اور دوسرا سرا حکیم نور الدین کو تھمادیا گیا۔
انھوں نے دھاگے کا سرا پکڑ کر چند لمحے غور کیا۔پھر بادشاہ کی طرف دیکھا اور مسکراکر عرض کیا:
”جناب عالی! یہ دھاگا خاتون کی کلائی سے نہیں ،بلکہ بلی کی ٹانگ سے بند ھا ہوا ہے اور جہاں تک بلی کا تعلق ہے ،وہ تندرست وتوانا ہے ۔

ابھی زیادہ عرصہ نہیں بیتا ،ہمارے انگریزی ادویہ کے ماہر ڈاکٹر بھی نبض پر ہی انحصار کیا کر تے تھے ۔
جراحتِ دل کے ایک ماہر سر جن نے اپنی ایک مریضہ کے دل کا آپریشن کیا ۔کچھ عرصے بعد جب وہ مریضہ معمول کا معائنہ کروانے آئیں تو جیسے ہی ڈاکٹر صاحب نے مریضہ کی نبض دیکھی تو فوراً کہا:
”آپ نے میری ہدایت کے باوجود ادویہ باقاعدگی سے نہیں کھائیں اور احتیاطی تدابیر بھی چھوڑ دیں ۔
آپ کی نبض بتا رہی ہے کہ مرض پلٹ رہا ہے ۔“
یہ ان ڈاکٹر صاحب کی حذاقت ،علمیت اور مہارت تھی کہ انھوں نے سب کچھ بتادیا ۔نبض آج بھی بدن کا اندرونی احوال بتانے پر قادر ہے ،لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اب ایسے حاذق طبیب اور مشاق ڈاکٹر بہت کم ہیں ۔چند برس پہلے کی بات ہے کہ ایک خاتون معمولی بخار کے علاج کے لیے ایک عام سے کلینک میں چلی گئیں ،وہاں موجود خاتون ڈاکٹر نے ان کی نبض دیکھی۔
ڈاکٹر صاحبہ کو فنِ نباضی پر کافی مہارت حاصل تھی ۔انھوں نے خاتون کو بتایا کہ وہ اُمید سے ہیں اور عین ممکن ہے کہ ان کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوں ۔انھوں نے مریضہ کو ہدایت کی کہ فوری طور پر الٹراساؤنڈ کروائے ،تاکہ حقیقت کا پتا چل سکے۔
یہ حقیقت ہے کہ یونان کی طب اور طبیب دونوں مستند حیثیت رکھتے ہیں ۔طب نے یونان سے اگر جنم نہیں لیا تو فروغ بہر حال پایا ہے ۔
فنِ نباضی آج اس طرح عام نہیں ہے ،جتنا ماضی میں تھا ،لیکن اس کی اہمیت وافادیت کو نظر اندا ز نہیں کیا جا سکتا ۔اگر آج بھی اس فن کے ماہر معالجین دستیاب ہوں تو امراض کی تشخیص کی بھاری فیسوں سے جان چھٹ جائے اور مرض کی درست تشخیص صرف نبض دیکھ کر کی جا سکے ۔
ڈاکٹر جاوید اختر چودھری نے اس حوالے سے بتایا کہ نبض شناسی کسی بھی معالج کی مہارت اور تجربات کا پیمانہ ہے ۔

یہ بات درست نہیں ہے کہ فنِ نباضی کو صرف ماضی ہی کا طریقِ تشخیص قرار دے کر جان چھڑالی جائے ۔
یہ مہارت آج بھی حاصل کی جا سکتی ہے ،لیکن اس کے لیے محنت ،لگن،ایمان داری ،خلقِ خدا کی خدمت کا جذبہ اور اخلاص درکار ہے ۔نبض شناسی دراصل طب کی ابجد ہے ،جس میں درسی علوم سے زیادہ مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور مہارت صرف اسی صورت میں آتی ہے ،جب محنت سے مسلسل مشق کی جائے۔
اب معالجین جان جوکھوں میں ڈالنے کے بجائے تن آسانی سے کام لیتے ہیں اور خدمت کے جذبے کے بجائے پیسوں پر نظر رکھتے ہیں ۔
آج کل غربت کی وجہ سے مریضوں کی ایک بڑی تعداد اتائیوں کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے ۔صاحب ثروت افراد کھانے پینے پر اندھا دھند دولت خرچ کر رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ امراض کی اقسام اور شرح بتدریج بڑھ رہی ہے ۔مشینی اور دیگر غیر معیاری تشخیصی ذرائع پر انحصار کیا جارہا ہے ،لیکن اصلی ،حقیقی اور موٴثر تشخیصی پیمانے کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔
نبض دراصل بیماریوں کی تاریخ نویس ہوتی ہے ،جو ایک ماہر نجومی کی طرح احوالِ بدن بیان کرنے پر قدرت رکھتی ہے ۔تعلیمی نصاب میں نبض کے حوالے سے تمام مواد موجود ہے اور پڑھا یا بھی جاتا ہے ،لیکن نئی نسل اپنی عجلت پسندی اور عدم توجہی کے باعث اس طریق تشخیص کی طرف کم راغب ہوتی ہے ۔اگر نبض شناسی کے فن کو فروغ حاصل ہو جائے تو بہت سی تشخیصی مشکلات کم ہو جائیں گی اور بیماریوں کا علاج کرنا آسان ہو جائے گا۔

Browse More Ghiza Aur Sehat