Pakistan Me Zehr Alood Pani - Article No. 1176

Pakistan Me Zehr Alood Pani

پاکستان میں زہر آلود پانی - تحریر نمبر 1176

کنووں سے حاصل شدہ پانی پینے ، کھانا پکانے اور آب پاشی میں استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ، جس سے عام افراد کی زندگی پر مضرِ صحت اثرات مرتَب ہوتے ہیں۔ اس زہر آلود پانی کی شناخت نہیں ہو پاتی، اس لیے کہ اس کا کوئی رنگ،بواور ذائقہ نہیں ہے

جمعہ 10 نومبر 2017

مدیحہ اختر:
گزشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ تقریباََ6 کروڑ پاکستان زہر آلود پانی پی رہے ہیں، جس سے مختلف قسم کی بیماریاں پھیلنے کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ زہریلی آلودگی زیر زمین حاصل کردہ پانی میں شامل ہے۔ یہ رپورٹ دریائے سندھ کے اطراف میں واقع 1200 کنووں سے حاصل کیے گئے پانی کو جانچنے کے بعد مرتب کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ بڑے شہروں ، مثلاََ گوجرانوالہ ، قصور، لاہور، ملتان،شیخوپورہ اور حیدر آباد کا زیر زمین پانی بھی آلودہوچکا ہے۔ حاصل ہونے والے فی لیٹر پانی میں 200 مائکروگرام زہریلی آلودگی شامل ہے۔ یہ اعدادوشمار عالمی ادارہٴ صحت کی بتائی ہوئی شرح سے بہت زیادہ ہیں۔

(جاری ہے)

عالمی ادارہٴ صحت کی بتائی ہوئی شرح سے بہت زیادہ ہیں۔ عالمی ادارہٴ صحت کی بتائی ہوئی شرح سر بہت زیادہ سے زیادہ فی لیٹر پانی میں 10 مائکروگرام تک ہونی چاہیے، جب کہ حکومت پاکستان کے مطابق اسے 50 مائکرو گرام فی لیٹر تک ہونا چاہیے۔

پانی میں زہریلی آلودگی کے اسباب تلاش کرنے سے پتا چلتا ہے کہ کیمیائی کھاد کے بڑے پیمانے پر استعمال، حشرات الارض کی بہتات ، کھیتوں کی آب یاری کے لیے استعمال ہونے والا غلیظ پانی ، کارخانوں کا کیمیائی اجزا ملا کثیف اور آلودہ پانی جو دریاؤں میں آکر گرتا ہے۔ یہ سب مل کر زمین میں جذب ہوکر زیر زمین پانی کو زہر آلود کرتے رہتے ہیں۔ کنووں سے حاصل شدہ پانی پینے ، کھانا پکانے اور آب پاشی میں استعمال کیا جاتا ہے ، جس سے عام افراد کی زندگی پر مضرِ صحت اثرات مرتَب ہوتے ہیں۔
اس زہر آلود پانی کی شناخت نہیں ہو پاتی، اس لیے کہ اس کا کوئی رنگ،بواور ذائقہ نہیں ہے۔ اس زہر آلود پانی کو مسلسل اور طویل عرصے تک پینے سے لوگ مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں، جن میں پھیپڑوں، گردوں، جگر اور جلد کا سرطان شامل ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ایسے آلودہ پانی کو کشیدکرلیا جائے۔ کشید کرنے کا مطلب ہے کہ پانی کو اُبال کر بھاپ بنانا اور پھربھاپ کو ٹھنڈا کرنا یا پھر اس میں کلورین کی مناسب مقدار شامل کی جائے۔
اس طرح سے پانی کثافت اور آلودگی سے پاک ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ جن علاقوں میں یہ آلودہ پانی پیا جاتا ہے، وہاں ایک مہم چلا کر لوگوں کو آگاہ کیا جائے اور یہ تلقین کی جائے کہ وہ پینے سے پہلے پانی خوب اُبال لیں، ورنہ اسہال اور قے متلی جیسی بیماریاں انھیں لگتی رہیں گی۔

Browse More Ghiza Aur Sehat