Polio - Ilaj Our Ahtiyat - Article No. 1319

Polio - Ilaj Our Ahtiyat

پولیو۔ علاج اور احتیاط - تحریر نمبر 1319

پولیو وائرس سے نہ صرف انسان کا اعصابی نظام مفلوج ہو جاتا ہے ، بلکہ بعض کیسز میںیہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ یہ ایک مہلک مرض ہے پولیو کا وائرس دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کی اندرونی بافتوں (ٹشوز) پر حملہ کرتا ہے، جس کے باعث پٹھے کم زور ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں متاثرہ فرد معذور ہو جاتا ہے۔ پولیو عام طور پر بچوں کا فالج ہے

منگل 5 جون 2018

عمران سجاد:
پولیو وائرس سے نہ صرف انسان کا اعصابی نظام مفلوج ہو جاتا ہے ، بلکہ بعض کیسز میںیہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ یہ ایک مہلک مرض ہے پولیو کا وائرس دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کی اندرونی بافتوں (ٹشوز) پر حملہ کرتا ہے، جس کے باعث پٹھے کم زور ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں متاثرہ فرد معذور ہو جاتا ہے۔ پولیو عام طور پر بچوں کا فالج ہے لیکن یہ 10عمر کے بعد بھی لاحق ہو سکتا ہے فالج میں زیادہ تربازو اور ٹانگیں لپیٹ میں آتی ہیں پولیو کا حملہ بار بار نہیں ہوتا جس پولیو وائرس سے فالج نہیں ہوتا اس میں بظاہر صرف نزلے زکام کی طرح کی تکالیف پائی جاتی ہیں پولیو کا وائرس مریضوں کے حلق اور آنتوں میں ہوتا ہے پولیو کی وجہ سے سے ہزاروں بچے اور عمر رسیدہ افراد نہ صرف معذور ہو جاتے ہیں بلکہ اس دنیا سے رخصت بھی ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

پولیو کوئی نیا مرض نہیں ہے اس کا وائرس بیسویں صدی میں پھیلا یہ مرض پہلے صرف برطانیہ اور یورپ تک محدودتھا لیکن بعد میں اس نے وبائی شکل اختیار کر لی اور پھر دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میںلے لیا۔1950میں پولیو سے بچاو¿ کی ویکسین تیار کر لی گئی یہ ویکسین سوئی کے ذریعے جسم میں پہنچائی جاتی تھی۔ بعد میں قطروں کی شکل میں پلائی جانے والی ویکسین تیار کی گئی، جوتا حال مستعمل ہے۔
اس مرض سے چھٹکارا پانے کے لیے دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر ٹھوس اقدام کیے گئے ہیں اور زیادہ تر ممالک اس سے نجات حاصل کر چکے ہیں ۔ دنیا کے 125ملکوں میں سے صرف تین ایسے ہیں جہاں پولیو کا وائرس ابھی تک انسانی زندگیوں کو ختم کر رہا ہے۔ ان ممالک میں افغانستان ، نائجیریا اور پاکستان شامل ہیں بد قسمتی سے پاکستان میں پولیو کے سب سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں۔
پاکستان سے دوسرے ملک جانے والے افراد کے پاس ویکسی نیشن (Vaccination) کارڈ رکھنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے اس کارڈ کے بغیر کوئی بھی فرد بیرونِ ملک سفر نہیں کر سکتا۔پولیو کی کل تین اقسام ہیں جن میں سے دوکا دنیا سے خاتمہ ہو چکا ہے جب کہ ایک قسم ابھی باقی ہے جو پاکستان اور افغانستان میں تباہی مچارہی ہے ۔ پولیو کا وائرس طویل عرصے تک زندہ فعال رہتا ہے اس مرض کا امکان موسم گرما اور اس کے بعد کے زمانے میں زیادہ ہوتا ہے چوٹ لگنے، حلق کے غدور اور ناک کی جراھی، شدیدجسمانی تھکن اور خواتین میں حمل کے زمانے میں اس مرض کا امکان زیادہ ہوتا ہے یہ ایک متعدی مرض ہے۔
یہ وائرس ان علاقوں میں خوب پھیلتا ہے جہاں گندگی زیادہ ہوتی ہے یا زیادہ افراد ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں پولیو کی علامتوں میں بخار ، سرکار درد، غنودگی، گردن اور کمر میں سختی شامل ہیں۔بچوں کی دوسری بیماریوں کا آغاز بھی ایسی ہی علامتوں سے ہوتا ہے اس لیے اگر آپ کے بچے میں کوئی ایسی علامت ظاہر ہو تو اُسے فوراََ کسی اچھے معالج کو دکھائیں۔

پاکستان میں پولیو کے پھیلاو¿ کی بنیادی وجہ صحت و صفائی کا فقدان اور دیہات کے لوگوں کا منفی رویہ ہے جس کا ختم کرنا بہت ضروری ہے کسی بھی پریشانی یا مسئلے کو ختم کرنے کے لیے مناسب حل یا طریقہ ضرور تلاش کرنا چاہیے۔ پاکستان کے ہر بچے کوپولیو سے بچاو¿ کی ویکسین کے قطرے ضرور پلائے جائیں، اس لیے کہ جب تک ملک کے تما بچوں کو قطرے نہیں پلائے جائیں گے وائرس ختم نہیں ہو گا۔
پولیو سے بچنے کے لیے ہمیں صفائی پر بھرپور توجہ دینی ہوگئی مکھیاں وائرس کو پھیلاتی ہیں اس لیے غذاو¿ں کو مکھیوں سے محفوظ رکھنا چاہیے۔یہ مرض ابھی تک پاکستان سے مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے البتہ س کی شرح میں ضرور کمی واقع ہوئی ہے ۔ یہ اب بھی بچوں اور بڑوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ مرض بڑی عمر میں بھی لاحق ہو سکتا ہے جو بچے اس مرض میں مبتلا ہو جائیں انہیں علاحدہ رکھنا چاہیے ان کے لیے مکمل آرام بے حد ضروری ہے اس مرض میں معالج مسکن اور دافع دور و بخار ادویہ تجویز کر سکتا ہے ۔
مریض بچوں کے منہ کی صفائی کا بہت خیال رکھا جائے۔ مثانے میں پیشاب جمع نہیں ہونا چاہیے ۔ خوش ذائقہ اور صحت بخش غذائیں کھلانی چاہیں۔ نیم گرمی پٹیوں سے عضلات کی سکائی کی جائے اور معالج کی اجازت سے ورزش بھی کی جائے اس طرح خون کا دوران بر قرار رہتا ہے۔سکائی سے پٹھوں کو آرام ملتا ہے موسم گرما اور سرما کے شروع میں ایسی غذائیں نہیں کھانی چاہیں، جنہیں ہضم کرنے میں دشواری ہو۔
اگر ہم واقعی ملک سے پولیو کا خاتمہ چاہتے ہیں تو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ اخبارات، ذرائع ابلاغ اور صحت کے متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ عام افراد کو پولیو سے بچاو¿ کے طریقے بتائیں اور ان کی رہنمائی کریں۔ والدین کے تعاون کی بدولت بھی پولیو کو ختم کیا جاسکتا ہے اس ضمن میں سول سوسائٹی، خواتین، اساتذہ اور نوجوان نسل کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو کے حفاظتی قطرے ضرور پلوائیں، البتہ ان قطروں کی مقررہ مدت کی تاریخ ضرور چیک کرلیں کہ وہ باقی ہے یا ختم ہو چکی ہے۔جو افراد انسداد پولیو کے قطرے پلانے والے رضاکاروں کے کام میں رکاوٹ بنتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ ایسا نہ کریں اس لیے کہ یہ بچوں کی صحت کا معاملہ ہے ۔ مستقل میںیہی بچے اگر صحت مند ہوںگے تو ملک کی ترقی اور خوش حالی میں کردار ادا کر سکیں گے ۔ ان معصوموں کی زندگیوں سے نہ کھیلیں یہ آپ کے باغ کے انتہائی خوب صورت پھول ہیں انہیں مسل کر باغ کو تباہ و ویران نہ کریں۔

Browse More Ghiza Aur Sehat