Bimariyon Se Nijat Ke Liye Sabziyaan Khaiye - Article No. 2205

Bimariyon Se Nijat Ke Liye Sabziyaan Khaiye

بیماریوں سے نجات کے لئے سبزیاں کھائیے - تحریر نمبر 2205

ہمارے ہاں سبزی خوروں کو عموماً بہت عجیب سمجھا جاتا ہے اور گوشت کھانے کو انسانی ترقی اور تہذیب و تمدن کی نشانی مانا جاتا ہے

پیر 19 جولائی 2021

پروفیسر ڈاکٹر سید اسلم
ہمارے ہاں سبزی خوروں کو عموماً بہت عجیب سمجھا جاتا ہے اور گوشت کھانے کو انسانی ترقی اور تہذیب و تمدن کی نشانی مانا جاتا ہے، جب کہ صحت و تندرستی کے لئے سبزی خوری کو غیر مفید اور فضول قرار دیا جاتا ہے،لیکن ان تمام باتوں کے باوجود آج سبزی خوری کی عادت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
زمانہ قدیم و جدید میں متعدد مشاہیر عالم گوشت خوری سے متنفر اور سبزی خوری کے شائق رہے ہیں۔
فیثاغورس،سقراط اور افلاطون کو بھی سبزی خوری مرغوب تھی،گو انھوں نے گوشت بالکل ترک نہیں کیا تھا۔دراصل سبزی خوری کو بدنام ان لوگوں نے کیا،جنہوں نے جانوروں کو ذبح کرنے پر واویلا کیا اور خود ایسی غذائیں کھائیں،جن کو طبیعت قبول نہیں کرتی تھی،مثلاً صرف چاول،حالانکہ عام سبزی خور متنوع غذائیں کھا کر صحت مند اور خوش باش رہ سکتے ہیں۔

(جاری ہے)


آج کے دور میں سبزی خوری کا رواج بڑھ رہا ہے اور کھانے والوں میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں۔

سبزی خوروں کی بھی مختلف اقسام ہیں۔ اول تو مطلق سبزی خور ہیں،جو کسی بھی قسم کی حیوانی غذا نہیں کھاتے اور ان کی ہر غذا پودوں سے حاصل ہوتی ہے۔دوسری قسم ان افراد کی ہے،جو سبزیوں کے ساتھ دودھ اور دودھ سے بنی اشیاء مثلاً دہی،پنیر وغیرہ بھی کھاتے ہیں۔تیسرے وہ لوگ ہیں،جو ان سب کے علاوہ انڈے بھی کھاتے ہیں۔آخر میں جزوی سبزی خور ہیں،جو گاہے بگاہے گوشت،مچھلی،مرغی اور انڈے بھی کھا لیتے ہیں خواہ مجبوراً یا دوست و احباب کی خاطر۔
بعض صرف مچھلی کھا لیتے ہیں۔آج کے دور میں لوگ سبزی خوری کی طرف صحت کی خاطر زیادہ راغب ہو رہے ہیں،کیونکہ گوشت بدہضمی، متعدد کیمیائی اشیاء اور عفونتی اجزاء کو جسم میں داخل کرنے کا بھی سبب ہے۔گزشتہ صدی سے بے گوشت غذا کی خوبیوں کے علم نے بھی اہل مغرب میں سبزی خوری کی عادت میں اضافہ کیا ہے۔پھر ماحولیاتی سوچ بچار نے بھی سبزی خوری کو فروغ دیا ہے اور جوانوں کو اس طرف متوجہ کیا ہے۔
اس سوچ میں یہ حقیقت کار فرما ہے کہ جانوروں کو پودے کھلانا اور پھر جانوروں سے گوشت حاصل کرنا ارضی وسائل کا زیاں ہے کہ دو سے دس پونڈ اناج کھلا کر صرف ایک پونڈ خوردنی گوشت حاصل کیا جاتا ہے۔اس کے برعکس ایک ایکڑ زمین سے 10 گنا زیادہ نباتی لحمیات (پروٹینز) حاصل کی جا سکتی ہیں،یعنی اس سے کہیں زیادہ جس قدر اس زمین پر چارا پیدا کرکے جانوروں سے حاصل ہوتی ہیں ۔
امریکہ میں 90 فیصد سویابین،مکئی،جئی اور جَو،جانوروں کو کھلا دیے جاتے ہیں۔ اگر یہ اناج انسان کھائیں تو بڑی مقدار باقی بچ جائے، پھر گوشت خوروں میں بعض قسم کا زہریلا مواد بھی جمع ہو کر مضر ہو سکتا ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ انسانی غذا سے گوشت خارج کرنا انسانی جبلت کے خلاف ہے،حالانکہ یہ خیال درست نہیں۔دراصل انسان اپنی ساخت کے لحاظ سے بڑی حد تک سبزی خور اور جزوی طور پر گوشت خور ہے۔
ہمارے دانت گوشت خور حیوانوں کی طرح نہیں ہیں۔ان حیوانوں کے جانبی دانت لمبے،مضبوط اور نوکیلے ہوتے ہیں،جب کہ سامنے کے چھوٹے دانت چیرنے پھاڑنے اور کاٹنے کے لئے ہوتے ہیں۔ان کے جبڑے دائیں بائیں حرکت نہیں کرتے اور اسی لئے یہ غذا کو نہ چبا سکتے ہیں اور نہ پیس سکتے ہیں،بلکہ ہڑپ کر لیتے ہیں۔ انسانی دانت سامنے سے بہت تیز ہوتے ہیں،جو غذا کو کترتے اور ٹکڑے کرتے ہیں،لیکن جانبی دانت چھوٹے اور چپٹے ہوتے ہیں،جو دائیں بائیں حرکت کرتے ہیں اور غذا کو چبانے اور پیسنے کے کام آتے ہیں۔
ان کا مقصد زیادہ تر ریشے دار غذا کو چبانا اور پیسنا ہے۔
انسانی ہاضمے کی نالی بھی سبزی خور جانوروں کی طرح ہے،جو نہایت طویل ہے۔یہ ہمارے جسم کی نسبت بارہ گنا زیادہ طویل ہوتی ہے۔یہ ان ریشے دار نباتی غذاؤں کے ہاضمے کے لئے ہے جو دیر میں ہضم ہوتی ہیں،مثلاً ترکاریاں،سبزیاں،اناج وغیرہ اور یہ غذائیں نہایت طویل عرصے تک اس ہاضمے کی نالی میں ٹھیرتی ہیں۔
گوشت خور حیوانوں کی ہضمی نالی مختصر اور ان کے جسم سے صرف تین گنا زیادہ بڑی ہوتی ہے۔ چونکہ گوشت جلد خراب ہو کر سڑ جاتا ہے،اس لئے اس کو جلد ہضم کرکے باہر خارج کرنا اور فضلات کو اندر جمع نہ ہونے دینا ضروری ہے،لہٰذا اگر گوشت کو لمبی ہضمی نالی والے انسان کثرت سے کھائیں گے تو ان کی بڑی آنت سرطان کے خطرے کی زد میں رہے گی،جو دور حاضر میں اہل مغرب اور تمام خوش حال گوشت خوروں میں عام ہے۔

انسانی تاریخ کا طویل ترین دور زیادہ تر سبزی خوری کا رہا ہے اور اب بھی دنیا کی زیادہ تر آبادی کا یہی طرز زندگی ہے۔ماضی قریب تک اسی طرح کی صورت حال اہل مغرب کی بھی تھی،گوشت کی طرف نہایت رغبت،صرف صدی ڈیڑھ صدی کا قصہ ہے،جس کو مزید مہمیز بیسویں صدی کی خوش حالی نے دی ہے۔
ہمارے ملک میں گوشت نہایت مقبول عام ہے اور سیخ کباب،بوٹی،نہاری،حلیم اور کڑاہی گوشت وغیرہ کے اشتیاق نے اس کا کھانا مزید بڑھا دیا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ محض گیارہ ترقی یافتہ ممالک دنیا کا 40 فیصد گوشت کھا جاتے ہیں۔کیا سبزی خور طویل العمر ہوتے ہیں؟یہ غلط فہمی بھی عام ہے کہ انسان جیسی قوی جسم کی مخلوق بغیر گوشت کھائے زندہ نہیں رہ سکتی۔ہاتھی،گھوڑے،بیل اور ماضی بعید کے بڑے بڑے حیوان،سبزی خور اور نہایت مضبوط و جفاکش رہے ہیں۔
عالمی جنگوں کے زمانے میں،جن ممالک میں گوشت کی رسد گھٹ گئی تھی،سبزی خوری نے صحت بہتر اور امکانی موت کی شرح گھٹا دی تھی۔
اُس زمانے میں دل و رگوں کے امراض کم ہو گئے تھے،مگر جنگ کے بعد جب غذاؤں میں وہی افراط ہو گئی تو مرض اور موت کا بھی پہلے جیسا حال ہو گیا۔یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ ہنزہ کے رہنے والے لوگ جن کی غذا زیادہ تر ترکاریوں پر مشتمل ہوتی ہے،نہایت طویل العمر ہوتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ غذاؤں میں سبزیوں کی کثرت ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔

سبزی خوری دل کی محافظ ہے۔یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ عارضہ رگ دل کی تکلیف ان ممالک میں زیادہ ہے،جو گوشت خور ہیں اور حیوانی غذائیں بہ رغبت کھاتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سبزی خوروں میں بلند فشار خون اور کولیسٹرول بڑھنے کی شکایت کم ہوتی ہے۔اس کی نسبت گوشت خوروں میں یہ شرح بلند رہتی ہے۔دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی چیزیں اور انڈے کھانے والوں میں بھی سبزی خوروں کی نسبت کولیسٹرول اور فشار خون زیادہ ہوتا ہے۔
عارضہ رگ دل کی خرابی میں اہم سبب کولیسٹرول اور جمی ہوئی چکنائی ہے،جو حیوانی غذاؤں سے حاصل ہوتی ہے۔اکثر لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ کھلاڑیوں وغیرہ کو حیوانی لحمیات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔دراصل انھیں جس قدر لحمیات پٹھوں کی صلاحیت بڑھانے کے لئے چاہیے،اس قدر لحمیات سبزیوں میں بھی ہوتی ہے،لہٰذا سبزی خوروں میں جفاکشی،مسلسل محنت اور قوت برداشت زیادہ ہوتی ہے۔

سبزی خوری اور سرطان
گزشتہ چند عشروں کی تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ جس غذا سے عارضہ قلب کے امکانات میں کمی ہوتی ہے،وہی غذا بڑی آنت،چھاتی اور رحم وغیرہ کے سرطان میں بھی کمی کا باعث ہوتی ہے۔بڑی آنت کے سرطان کا سبب گوشت،چربی اور کولیسٹرول کا باقی ماندہ پھوک ہوتا ہے،جس سے سرطانی مواد پیدا ہوتا ہے اور وہ بڑی آنت کے قرب میں رہتا ہے،کیونکہ اس طرح کی غذا کھانے والے قبض میں مبتلا رہتے ہیں۔
رحم اور چھاتی کے سرطان کا سبب،اس غذا سے کثیر مقدار میں نسوانی ہارمون ایسٹروجن کی پیداوار ہوتی ہے،جو سرطانی اثرات رکھتی ہے ۔یہ بھی پتا چلا ہے کہ سبزیاں مثلاً گوبھی،شلجم،مولی،پالک،پھلیاں،دالیں اور بیج والے پھل کھانے والے مانع سرطان ہاضم خمیر (انزائمز) پیدا کرتے ہیں اور اس طرح سرطانوں سے نسبتاً محفوظ رہتے ہیں۔سبزی خوری کے فوائد حاصل کرنے کے لئے مطلق سبزی خور ہو جانا ضروری نہیں۔
دراصل ہر کھانے میں یا ہر روز گوشت کھانا غیر ضروری ہے۔کھانوں کا اہتمام اس طرح کیا جائے کہ سبزیوں، ترکاریوں پر انحصار بڑھتا جائے اور گوشت و چربی پر کم ہوتا جائے۔کم گوشت کے سالن میں سبزی کی مقدار زیادہ ہونی چاہیے۔اس ضمن میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہونا چاہیے کہ اصل کھانا دال،سبزی،پھلی اور اناج ہے،باقی گوشت کی قلیل مقدار صرف خوشبو اور ذائقے کے لئے ہے۔

Browse More Ghiza Kay Zariay Mukhtalif Bemarion Ka Elaaj