Mango - Garmiyon Ka Mufeed Tareen Phal - Article No. 2195

Mango - Garmiyon Ka Mufeed Tareen Phal

آم۔گرمیوں کا مفید ترین پھل - تحریر نمبر 2195

آم اپنے منفرد ذائقے،تاثیر،رنگ،خوشبو اور صحت بخشی کے لحاظ سے ایک اعلیٰ ترین پھل ہے

بدھ 7 جولائی 2021

حکیم راحت نسیم سوہدروی
آم پھلوں کا بادشاہ ہے۔اس کا شمار برصغیر پاک و ہند کے انتہائی مفید،رسیلے اور ذائقے دار پھلوں میں کیا جاتا ہے۔یہ ایک مقبول ترین پھل ہے،جسے بچہ بچہ جانتا اور پسند کرتا ہے۔آم کو برصغیر پاک و ہند کا جلیل القدر پھل،جنت کا میوہ اور دیوتاؤں کا بھوگ جیسے نام تک دیے گئے ہیں۔آم اپنے منفرد ذائقے،تاثیر،رنگ،خوشبو اور صحت بخشی کے لحاظ سے ایک اعلیٰ ترین پھل ہے۔

آم کا درخت خوب پھل لاتا ہے۔اس کی سینکڑوں قسمیں ہیں۔پاکستان اور ہندوستان آم کے گھر کہلاتے ہیں۔ہندوستان کے قدیم باشندے بھی اسے بہت ذوق و شوق سے کھاتے تھے۔
فرانسیسی مورخ ڈی کنڈوے کے مطابق برصغیر میں آم چار ہزار برس قبل بھی کاشت کیا جاتا تھا۔آج کل جنوبی ایشیا کے ممالک میں یہ بڑے پیمانے پر تجارتی طور پر بھی کاشت کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

جنوبی امریکہ میں بڑے پیمانے پر اس کی کاشت کی جانے لگی ہے،مگر ذائقے،تاثیر اور اقسام کے لحاظ سے اب پاکستان اور ہندوستان کے آموں کو برتری حاصل ہے۔
ویسے تو آم کی متعدد اقسام ہیں،تاہم دو قسمیں عام ہیں،یعنی تخمی اور قلمی۔کچا آم جس میں گٹھلی نہیں ہوتی،کیری کہلاتا ہے اور اس کا ذائقہ ترش ہوتا ہے۔بعض حالات میں اس کا کھانا نقصان دہ ہوتا ہے،البتہ پکا ہوا آم شیریں اور کبھی کھٹ مٹھا ہوتا ہے۔
پکے ہوئے تخمی آم کا رس چوسا جاتا ہے اور قلمی آم کاٹ کر کھایا جاتا ہے۔آم قلمی ہو یا تخمی،لیکن پکا ہوا خریدنا چاہیے،کیونکہ اس کے فوائد مسلم ہیں۔پکا ہوا آم رسیلا ہونے کی وجہ سے پیٹ میں گرانی پیدا نہیں کرتا اور زود ہضم ہونے کے باعث جلد جز و بدن بن جاتا ہے۔پکا ہوا رس دار آم اپنی تاثیر کے لحاظ سے گرم و خشک ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آم کھانے کے بعد کچی لسی (دودھ میں پانی ملا ہوا) پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے،اس طرح آم کی گرمی و خشکی جاتی رہتی ہے۔
جو لوگ کچی لسی نہیں پیتے،وہ عام طور پر منہ میں چھالے یا جسم پر پھوڑے پھنسیاں نکل آنے کی شکایت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آم کھانے کے بعد کچی لسی پینے سے جسم میں طاقت و توانائی آجاتی ہے اور معدے،مثانے اور گردوں کو بھی طاقت پہنچتی ہے۔ آم اعضائے رئیسہ،یعنی دل و دماغ اور جگر کے لئے مفید ہے۔آم میں نشاستے دار اجزاء ہوتے ہیں،جن سے جسم فربہ ہوتا ہے۔
آم اپنے قبض کش اثرات کے باعث بھی مفید پھلوں میں شمار و پسند کیا جاتا ہے۔آم جس قدر میٹھا اور رسیلا ہو گا،اُسی قدر گرم ہو گا اور جس قدر کم میٹھا اور تُرش ہو گا،اُسی قدر نیم گرم ہو گا۔آم ایک ایسا پھل ہے ،جو خون صاف کرکے چہرے کی رنگت کو نکھارتا اور حسن کو دوبالا کرتا ہے۔
ماہرین طب کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ آم تمام پھلوں میں سب سے زیادہ اعلیٰ خصوصیات کا حامل پھل ہے۔
اس میں حیاتین الف اور ج (وٹامنز اے اور سی) تمام پھلوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔کچا آم اپنی تاثیر کے لحاظ سے ٹھنڈا ہوتا ہے،لیکن ذائقے میں ترش ہوتا ہے۔یہ بھی غذائی اور دوائی اثرات سے بھرپور ہوتا ہے۔اسے کھانے سے بھوک لگتی ہے اور صفرا (Bile) کم ہوتا ہے۔یہ لُو کے اثرات سے بھی محفوظ رکھتا ہے،البتہ وہ لوگ جو نزلے زکام اور کھانسی میں مبتلا رہتے ہوں،انھیں کچا آم،یعنی کیری نہیں کھانی چاہیے،اس لئے کہ انھیں فائدے کے بجائے نقصان ہو سکتا ہے۔

پکا ہوا شیریں اور رس دار آم ہر عمر کے فرد کے لئے یکساں مفید ہے۔جو بچے لاغر و کمزور ہوں،ان کے لئے آم ایک عمدہ قدرتی ٹانک (Tonic) ہے۔یہ حاملہ خواتین کے لئے بھی بے حد فائدہ مند ہے۔جو خواتین حمل کے دنوں میں آم کھاتی ہیں،ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچے خوبصورت ہوتے ہیں۔دودھ پلانے والی ماؤں کو روزانہ آم کھانے چاہییں،اس طرح دودھ کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

یہ خوش ذائقہ پھل نہ صرف نیا خون بنانے والا قدرتی ٹانک ہے،بلکہ گوشت بھی بناتا ہے۔اس میں نشاستی اجزاء کے علاوہ کیلسیئم،پوٹاشیم، گلوکوس اور فولاد بھی پائے جاتے ہیں،اسی لئے یہ دل،دماغ،جگر،سینے اور پھیپھڑوں کے لئے بہت مفید ہے۔آم خالی پیٹ ہر گز نہیں کھانا چاہیے اور آم کھانے کے بعد دودھ ملا پانی ضرور پینا چاہیے،اس طرح آم کے فوائد بڑھ جاتے ہیں۔
بعض لوگ آم کھانے کے بعد پیٹ میں گرانی محسوس کرتے ہیں اور طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے۔انھیں آم کھانے کے بعد تھوڑی سی جامنیں کھا لینی چاہییں۔جامن آم کا مصلح (ضرر سے بچانے والا) ہے۔
آم میں لحمیات (پروٹینز) 70 فیصد،نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ)217 فیصد،چکنائی 40 فیصد،نمکیات 50 فیصد،پانی 48 فیصد،فاسفورس 13 ملی گرام فی سو کلو گرام،کیلسیئم 14 ملی گرامی فی سو گرام،فولاد 31 ملی گرام فی سو گرام،حیاتین الف 6350 بین الاقوامی یونٹ فی سو کلو گرام،حیاتین ب(1) 40 ملی گرام فی سو گرام،حیاتین ب (5) 30 ملی گرام،حیاتین ج 41 ملی گرام اور حیاتین ب (2) 10 ملی گرام جیسے صحت بخش اجزاء پائے جاتے ہیں۔
یوں تو آم کی بہت سی قسمیں سامنے آچکی ہیں،لیکن پاکستان میں بہ کثرت پیدا ہونے والی اقسام ذیل میں درج کر دی گئی ہیں:
دسہری:
اس کی شکل لمبوتری ہوتی ہے۔اس کا چھلکا خوبانی کی رنگت جیسا،مگر پتلا اور گودے کے ساتھ چمٹا ہوا ہوتا ہے۔دسہری آم کا گودا گہرا زرد،نرم،ذائقے دار اور شیریں ہوتا ہے۔
چونسا:
یہ آم قدرے لمبا ہوتا ہے۔
اس کا چھلکا درمیانی موٹائی والا،ملائم اور پیلے رنگ کا ہوتا ہے۔اس کا گودا گہرا زرد،بہت خوشبودار اور میٹھا ہوتا ہے۔اس کی گٹھلی پتلی لمبوتری،بڑے سائز اور کم ریشے والی ہوتی ہے۔اس کی کاشت کی ابتداء ملیح آباد (بھارت) کے قریبی قصبے چونسا سے ہوئی۔
انور رٹول:
اس کی شکل بیضہ نما ہوتی ہے۔یہ درمیانے سائز کا ہوتا ہے۔
اس کا چھلکا درمیانی موٹائی والا،چکنا اور سبزی مائل زرد ہوتا ہے۔اس کا گودا بے ریشہ،سخت،سرخی مائل زرد،شیریں،خوشبودار اور کم رس والا ہوتا ہے۔اس کی گٹھلی درمیانی بیضوی اور نرم ریشے سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہے۔اس کی کاشت کی ابتداء میرٹھ (بھارت) کے قریب رٹول سے ہوئی۔
لنگڑا:
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔اس کا چھلکا بہت پتلا اور عمدہ قسم کے گودے کے ساتھ چمٹا ہوا ہوتا ہے۔
اس کا گودا سرخی مائل زرد،شیریں ،نہایت عمدہ اور رس دار ہوتا ہے۔
الماس:
اس کی شکل گول بیضوی ہوتی ہے۔اس کا سائز درمیانی ہوتا ہے۔اس کا چھلکا زردی مائل سرخ ہوتا ہے۔الماس آم کا گودا خوبانی کے رنگ جیسا،نرم و ملائم،میٹھا اور برائے نام ریشے دار ہوتا ہے۔
فجری:
فجری آم بھی بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔
اس کا چھلکا زردی مائل،معمولی سا کھردرا،موٹا اور عمدہ قسم کے گودے کے ساتھ چمٹا ہوا ہوتا ہے۔اس آم کا گودا زردی مائل سرخ،خوش ذائقہ،رس دار اور معمولی سا ریشے دار ہوتا ہے،البتہ اس کی گٹھلی موٹی لمبوتری اور ریشے دار ہوتی ہے۔
سندھڑی:
آم کی یہ قسم بیضوی لمبوتری ہوتی ہے۔اس کا سائز بڑا ہوتا ہے۔اس کا چھلکا زرد،چکنا،پتلا اور گودے کے ساتھ چمٹا ہوا ہوتا ہے۔
اس کا گودا زرد،شیریں،رسیلا ہوتا ہے۔اس کی گٹھلی لمبی اور موٹی ہوتی ہے۔
غلام محمد والا:
یہ آم سائز میں چھوٹا ہوتا ہے۔اس کا چھلکا موٹا اور پتلا ہوتا ہے۔اس کا گودا گہرا پیلا،میٹھا اور رسیلا ہوتا ہے۔اس کی گٹھلی کا سائز درمیانی ہوتا ہے۔
گولا:
گولا آم شکل میں گول ہوتا ہے۔یہ درمیانے سائز کا ہوتا ہے۔
اس کا چھلکا گہرا نارنجی اور پتلا ہوتا ہے۔اس کا گودا ہلکے پیلے رنگ کا،ریشے والا اور رس دار ہوتا ہے۔اس کی گٹھلی بڑی ہوتی ہے۔
مالدا:
یہ آم بڑے سائز کا ہوتا ہے۔اس کی گٹھلی انتہائی چھوٹی ہوتی ہے۔اس کا چھلکا پیلا اور پتلا ہوتا ہے۔یہ پاکستان کا مشہور،خوشبودار اور اعلیٰ قسم کا آم ہے۔
نیلم:
یہ آم درمیانے سائز کا ہوتا ہے۔
اس کا چھلکا درمیانی موٹا،زرد رنگ کا اور چمک دار ہوتا ہے۔
سہارنی:
اس کا سائز درمیانی ہوتا ہے۔یہ ذائقے دار اور قدرے میٹھا ہوتا ہے۔
قدرت نے جتنے بھی پھل عطا فرمائے ہیں ،سب موسمی تقاضے پورا کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔اسی طرح آم موسم گرما کا پھل ہے۔اس موسم میں دھوپ میں باہر نکلنے سے لُو لگ جاتی ہے،لُو لگنے کی وجہ سے شدید بخار ہو جاتا ہے اور آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں۔
لُو کے اثر کو ختم کرنے کے لئے کچا آم گرم راکھ میں دبا دیں اور نرم ہونے پر نکال لیں۔پھر اس کا رس نکال کر،اس میں ٹھنڈا پانی اور چینی ملا دیں اور متاثرہ شخص کو پلائیں،لُو لگنے کی صورت میں تریاق کا کام دے گا۔
آم کے پتے،چھال،گوند،پھل اور گٹھلی سب دوا کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔آم کے بہت پرانے اچار کا تیل گنج کے مقام پر لگائیں، فائدہ ہو گا۔
یہ بال چر میں بھی مفید ہے۔آم کے درخت کی پتلی ٹہنیوں کو مسواک کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ایک پتلی ٹہنی سے روزانہ مسواک کرنے سے منہ کی بُو جاتی رہے گی۔
آم کے بور (پھول) کا سفوف روزانہ نہار منہ چینی ملا کر کھائیں،مرض جریان ختم ہو جائے گا۔جن لوگوں کو پیشاب رُکنے کی شکایت ہو،وہ آم کی جڑ کا چھلکا اور برگ شیشم ایک ایک تولہ لے کر ایک کلو پانی میں اُبال لیں،جب پانی تین حصے رہ جائے تو اُسے ٹھنڈا کرکے اس میں چینی ملا کر پییں،انھیں پیشاب کھل کر آئے گا۔
ذیابیطس کے مرض میں آم کے پتے جو خود بخود جھڑ کر گِر جاتے ہیں،انھیں دھو کر سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔پھر صبح و شام دو دو ماشے پانی کے ساتھ کھائیں،چند دنوں میں فائدہ ہو گا۔نکسیر پھوٹنے کی شکایت میں آم کے پھولوں کو سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں اور تھوڑا سا ناک میں ڈالیں،خون نکلنا بند ہو جائے گا۔
جن لوگوں کے بال سفید ہوں،وہ آم کے پتے اور شاخیں دھو کر خشک کرکے سفوف بنا لیں۔
پھر روزانہ تین ماشے کھائیں،فائدہ ہو گا۔کھانسی ،دمے اور سینے کے امراض میں مبتلا مریض آم کے نرم تازہ پتوں کے جوشاندے میں ارنڈی کے درخت کی چھال اور سیاہ زیرے کا سفوف شامل کرکے پییں،موٴثر ثابت ہو گا۔
آم کی چھال قابض ہوتی ہے اور اندرونی جھلیوں پر بہت اثر کرتی ہے۔یہ سیلان الرحم (لیکوریا)،آنتوں اور رحم کی ریزش،پیچش اور خونی بواسیر کے خاتمے کے لئے بہترین دوا سمجھی جاتی ہے۔
ان امراض میں چھال کا سفوف یا تازہ چھال کا رس نکال کر اسے انڈے کی سفیدی یا گوند کے ساتھ پلایا جاتا ہے۔چھال کا رس چونے کے پانی کے ساتھ پلانے سے سوزاک کے مرض سے نجات مل جاتی ہے۔سوزاک میں یہ ایک تیر بہ ہدف دوا سمجھی جاتی ہے۔تازہ چھال کا رس آتشک کے مرض کا بھی بہترین علاج ہے۔
کیری ترش اور مسہل (دست آور) ہونے کے علاوہ مرض اسکروی (ایک مرض جس میں مسوڑوں سے خون خارج ہوتا ہے اور مندمل زخم ہرے ہو جاتے ہیں) کا بھی خاتمہ کرتی ہے۔
کیری کا چھلکا قابض ہوتا ہے۔
آم کی گٹھلی کی گری بھی قابض ہوتی ہے۔چونکہ اس میں بہ کثرت گیلک ایسڈ (Gallic Acid) ہوتا ہے،اس لئے یہ پرانی پیچش،اسہال، بواسیر اور سیلان الرحم میں مفید ہے۔پیچش میں آنوٴں کو روکنے کے لئے گری کا سفوف دہی کے ساتھ کھلایا جاتا ہے۔نکسیر بند کرنے کے لئے گری کا رس ناک میں ٹپکایا جاتا ہے۔
دستوں کی شکایت میں آم کی گٹھلی کا مغز مفید ہے،خاص طور پر پرانی گٹھلی زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے۔مغز کو باریک پیس کر اس کی تین گرام مقدار پانی کے ساتھ کھانے سے دست رُک جاتے ہیں۔اس کے علاوہ ایام میں خون کا اخراج زیادہ ہو یا خونی بواسیر کی شدت سے کمزوری روز بروز بڑھ رہی ہو تو مغز کا سفوف کھلانے سے یہ تکالیف ختم ہو جاتی ہیں۔

Browse More Ghiza Kay Zariay Mukhtalif Bemarion Ka Elaaj