Air Pollution Khamosh Qatil - Article No. 2903

Air Pollution Khamosh Qatil

فضائی آلودگی خاموش قاتل - تحریر نمبر 2903

اس سے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں

بدھ 20 نومبر 2024

ڈاکٹر جمیلہ آصف
ذراتی مادے جنہیں PM کہا جاتا ہے، بنیادی طور پر معدنی ایندھن کے جلنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں ہوا کی آلودگی کی سب سے مہلک شکل سمجھے جاتے ہیں۔ذراتی مادے (PM) جو ٹھوس ہو سکتے ہیں اور مائع بھی ہوا میں معلق ہوتے ہیں۔جب ہوا ان ذراتی مواد سے آلودہ ہو جاتی ہے تو یہ ذرات آکسیجن کے ساتھ سانس کے نظام میں داخل ہو جاتے ہیں۔
جب یہ ذرات ناک یا منہ کے ذریعے سانس میں اترتے ہیں تو ہر ذرے کا اثر اس کے سائز پر منحصر ہوتا ہے، جتنے باریک ذرات ہوتے ہیں اتنے ہی جسم کے اندر جا کر اثر انداز ہوتے ہیں۔PM10 یعنی 10 مائیکرو میٹر سے چھوٹے ذرات جو ہوا میں شامل ہوتے ہیں، ناک کے بالوں کے اندر سے بھی گزر جاتے ہیں۔یہ سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں تک جاتے ہیں جہاں ذرات کی سطح پر موجود دھاتی عناصر پھیپھڑوں کے خلیات کو آکسیڈائز کر کے ان کو نقصان پہنچاتے ہیں اور کینسر کے خطرات میں اضافہ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

پھیپھڑوں کے خلیات کے ساتھ ان ذرات کا تعامل سوزش اور سانس کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بن سکتا ہے جس سے سانس لینے میں مشکل پیدا کرنے والی بیماریاں جیسا کہ COPD، پھیپھڑوں کا انفیکشن اور برونکائیٹس کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے۔
AQLI کی 2024ء کی رپورٹ کے مطابق آلودگی کی وجہ سے لاہور، شیخوپورہ، قصور اور پشاور جیسے شہروں میں رہنے والے لوگوں کی عمر 4 سال کم ہو سکتی ہے۔
ملک کی تقریباً 98 فیصد آبادی ان علاقوں میں رہتی ہے جہاں سالانہ اوسطاً فضائی آلودگی پاکستان کے قومی فضائی معیار اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے طے کردہ فضائی آلودگی کی گائیڈ لائنز سے زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق اگر آلودگی کی موجودہ سطح اسی طرح برقرار رہی تو پنجاب، اسلام آباد اور خیبرپختونخوا میں رہنے والے افراد کی اوسط عمر میں تقریباً 3.7 سے 4.6 سال کی کمی واقع ہونے کا امکان ہے۔

اسی فضائی آلودگی کے باعث آج کل ملک بھر میں سموگ کا راج بھی ہے جو دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، خصوصاً لاہور تو سموگ کا سب سے زیادہ نشانہ ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ لاہور میں فروری تک کوئی بھی دن سموگ فری نہیں ہو گا۔سموگ بجا طور پر چھوٹے بچوں اور اور بزرگوں کیلئے خطرناک ہے۔بعض ماہرین تو اب یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ حالیہ دنوں میں بچوں کا سکول جانا مناسب نہیں ہے، اسی لئے پنجاب حکومت نے تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کا اعلان کر دیا ہے۔
اس کے باوجود والدین کو چاہئے ان کے بچے ماسک پہن کر باہر نکلیں اور زیادہ وقت گھر میں گزاریں۔سموگ کے دنوں میں بچے اور بڑے سبھی ماسک پہنیں جن میں این 95، این 99 اور این 900 تجویز کردہ ہیں اور اس ماسک کو کم از کم 12 دن بعد تبدیل کیا جانا چاہیے۔دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو سموگ میں بہت سے لوگ ماسک پہنتے ہیں جو صرف ناک کو ہی ڈھانپتا ہے، آنکھیں نہیں۔
ماہرین کے مطابق آنکھیں بھی سموگ میں خراب ہو سکتی ہیں اور انہیں بھی نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لئے سموگ سے بچاوٴکے لئے سن گلاسز کا استعمال کریں۔
ان دنوں ڈاکٹرز کے پاس سو فیصد مریض سموگ سے متاثر ہو کر آ رہے ہیں۔ان میں دمہ، بغیر کسی وجہ کے کھانسی، سانس کی مختلف تکالیف اور یہاں تک کہ سموگ سے دل کا دورہ پڑنے والے مریض بھی شامل ہیں۔
ماہرین صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ سموگ سے حاملہ خواتین کو بھی خطرہ ہے۔اگر خاتون حاملہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ کم سے کم باہر نکلیں سموگ اور آلودہ ہوا ماں کے پیٹ میں بچے کو متاثر کرتی ہے اور اس کی نشوونما کو روک سکتی ہے۔زہریلی سموگ کا سبب ٹرانسپورٹ سیکٹر بھی بن رہا ہے۔40 فیصد سبب ڈیزل والی گاڑیاں ہیں اور ان کا سدباب ہونا چاہیے۔ہوا کو خالص بنانے والی مشینیں یا ماسک وغیرہ صرف وہ لوگ لے سکتے ہیں جن کے پاس وسائل ہیں مگر سموگ سبھی پر اثر انداز ہو رہی ہے، اس لئے ہمیں ہر سطح پر اس کی روک تھام کرنا ہو گی جس کے لئے خاص طور پر اپنے ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے کے تمام طریقے اپنانا ہوں گے۔

Browse More Healthart