Allergy Aik Aam Bimari Hai - Article No. 941

Allergy Aik Aam Bimari Hai

الرجی ایک عام بیماری - تحریر نمبر 941

قوت مدافعت کم ہونے کے سبب ہوتی ہے

جمعرات 12 مئی 2016

نداافضل:
ہمارے ہاں پائی جانے والی بیماریوں میں ایک بیماری” الرجی“ بھی ہے جو بچوں سے لیکر بوڑھوں تک سب کو متاثر کرتی ہے۔ الرجی کے مریضوں کے لیے موسم کی تبدیلی کافی تکلیف وہ ہوتی ہے کیونکہ موسم تبدیل ہوتے ہی الرجی کے مریض چھینکنے لگتے ہیں یوں یہ سلسلہ کئی دن تک بھی جاری رہتا ہے چھینکنے کے علاوہ جلد کی رنگت کی تبدیلی اور خارش بھی الرجی ہی کی ایک قسم ہے۔
ماہرین کے مطابق الرجی صرف جلد پر خارش ہونے کو نہیں کہتے ہیں بلکہ دوسری بیماریوں کی طرح الرجی بھی ایک عام بیماری ہے جو جینیاتی خرابی کی وجہ سے قوت مدافعت کمزور پڑنے کے سبب پیدا ہوتی ہے اور یہ جسم پر آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھائی ہے۔ یوں تو الرجی کی کئی اقسام ہیں لیکن اس کی دو صورتیں قابل ذکرہیں۔

(جاری ہے)


Condition Acute 2 Condition Chronic
پہلی قسم میں الرجی کے وہ تمام مسائل شامل ہیں جن کا فوری علاج کرناضروری ہوتا ہے۔

مثلا کھانا کھاتے ہی جسم پرخارش کا شروع ہوجانا،داپھڑیاددوڑا جانا، فوراقے یادستوں کا شروع ہوجانا،آدھے سرکادرد شروع ہونا، وغیرہ جبکہ دوسری قسم میں وہ تمام الرجیزشامل ہیں جنہیں مریض برداشت کرنا رہتا ہے۔ الرجی کی یہ قسم کئی دن ہفتوں ، مہینوں یا سالوں میں جاکر شدت اختیار کرتی ہیں مثلاََ کھانسی، دمہ ناک کے غدود کا بڑھنا، مستقل نزلہ، آنکھوں میں خارش صبح اٹھتے ہی چھینکوں کا شروع ہوجانا، نہانے کے بعد جسم میں خارش ہونا، جوڑوں کا درد، گلے میں مستقل خراش، پیٹ کا مستقل خراب رہنا یا پتلے پاخانے کا ہونا اور مختلف اقسام کی جلدی بیماری کاعلاوہ جسم کے حصوں مثلاََ چہرے یا ہونٹوں کا سوجنا اور خارش کی وجہ سے جسم پردھبے وغیرہ پڑنا شامل ہیں۔

الرجی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا نظام مدافعتی نظام Immunity system Boddy ہے لیکن نئی تحقیق کے مطابق الرجی ایک ایسا مرض ہے جو جسم کے عام نظام کو متاثر کرتا ہے ان میں نظام تنفس، اعصاب اور کارڈیو، یسکیولر سسٹم وغیرہ شامل ہیں۔ ان نظام کے متاثر ہونے سے مختلف علامات اور شکایات ہوتی ہیں، زیادہ تر علامات جلدی بیماریوں کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔
جب باہر کی گرد آلود ہوا سانس یاکھانے کے ذریعے جسم کے اندر داخل ہوتی ہے تو جوذرات الرجی کاعمل کرتے ہیں وہ جسم کے مدافعتی نظام پر حملہ آور ہوکراسے کمزور کردیتے ہیں اس عمل میں جو سیل حصہ لیتے ہیں وہ ” ماسٹ سیل“ Mastcellکہلاتے ہیں اور جو اینٹی باڈی بنتی ہیں وہ Igeکہلاتی ہیں۔ جب یہ اینٹی باڈی ری ایکشن Antigenہوتا ہے تو Mastcellسے کچھ مادے Mediatorنکل کر tissue Bodyمیں آجاتے ہیں جن میں Histamineاور کچھ کیمیکلز موجود ہوتے ہیں اور وہی جسم میں الرجی کا سبب بنتے ہیں۔
جن لوگوں کی قوت مدافعت مورثی کمزور ہوتی ہے وہ الرجی کاشکار آسانی سے ہوجاتے ہیں، مثلا جب موسم تبدیل ہوتا ہے اورنمی کاتناسب بڑہتا ہے تو سانس کی تکلیف دمہ یامستقل نزلے کی وجہ سے انک کابہنا بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح مختلف نمی اثرات کی وجہ سے الرجی کی تکلیف بڑھتی اور گھنٹی ہیں۔
ماہرین طب کے مطابق مریضوں میں کسی قسم کی الرجی کی اصل وجہ جاننا نہایت مشکل ہوتا ہے۔
کسی بھی مریض کاطرز زندگی کا طرز زندگی، اس کے ماحول کے بارے میں تفصیلات کے ساتھ چند دنوں کے دوران اس کے کھانے پینے اور زیر استعمال رہنے والی اشیا کے بارے میں جاننے کے بعد ہی الرجی کا سبب بتایاجاسکتا ہے۔ دن یا رات کے مخصوص اوقات میں جسم کے مختلف حصوں پر خارش یا سوجن بھی الرجی کی علامت ہے۔ بعض لوگوں کو جسمانی نظام تیز خوش بو مختلف کیمیکلز، گاڑیوں کے انجن کادھواں بھی قبول نہیں کرتا اور وہ الرجی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
الرجی انسانوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے اور کسی بھی عمر میں ہم اس کاشکار ہوسکتے ہیں۔ نئی جگہ اور ماحول، بعض مصنوعات اور عام زندگی کاحصہ سمجھی جانے والی بے شمار اشیا الرجی کاسبب بن سکتی ہیں۔ اکثر یہ اشیا براہ راست الرجی کا باعث نہیں بنتیں بلکہ ان کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزا میں چھپی ہوئی پھپھوندی اور مختلف اجسام ومادے اس کا سبب ہوتے ہیں۔
مختلف خردبینی جاندار بھی الرجی پیداکرتے ہیں اور زیادہ تربچوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق بعض مصنوعات کو اُبالا گرم پانی سے دھویا جائے تو ان میں موجود الرجی کا سبب بننے والے اجسام کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
اگر گھر کاکوئی فرد الرجی میں مبتلا ہے اور وہ صبح اٹھتے ہی مسلسل چھیکنے لگتا ہے تو گھر کے دوسرے افراد کو اس سے ذرا فاصلے پر رہنا چاہیے تاکہ الرجی کے بیکٹیریا ایک شخص سے دوسرے میں منتقل نہ ہوں۔ الرجی کو خود بخود ختم ہونے والی بیماری نہ تصور کیاجائے۔ یہ جتنی قدیم ہوتی جائے گی اس سے باہر نکلنا اتنا ہی مشکل ہوگا لہٰذا الرجی سے متاثر افرادفوراََ مستند معالج سے رجوع کریں تاکہ اُن کی بیماری طویل نہ ہونے پائے۔

Browse More Healthart