Amraz E Sarma - Article No. 1724

Amraz E Sarma

امراضِ سرما - تحریر نمبر 1724

کھانسی،نزلہ،زکام اور فلو کا تعلق امراض کے اس گروہ سے ہے،جو سردیوں میں آپکڑ تے ہیں۔

منگل 12 نومبر 2019

پروفیسر ڈاکٹر سید اسلم
کھانسی،نزلہ،زکام اور فلو کا تعلق امراض کے اس گروہ سے ہے،جو سردیوں میں آپکڑ تے ہیں۔ان سب کی علامات زیادہ تریکساں ہوتی ہیں،ان سب میں جو قدر مشترک ہے ،وہ یہ ہے کہ ان کا وار بالائی تنفسی مقامات یعنی ناک ،کان اور حلق وغیرہ پر پڑتاہے۔چونکہ یہ سب ہم کو کبھی نہ کبھی ہوئے ہیں،اس لیے ان کو بہ آسانی پہچانا جا سکتاہے،قبل اس کے کہ ان کی صحیح وجہ کاعلم ہو یہ آپ سے آپ درست بھی ہو جاتے ہیں۔

ان کی تشخیص کے لیے بلغم ،خون اور پیشاب وغیرہ کے ٹیسٹ کرانے کا بھی عموماً کوئی فائدہ نہیں ہوتا،حالانکہ یہ رواج بہت ہے ۔یہ بات خوش آئند ہے کہ ان کے کوئی دور رس عواقب نہیں ہوتے،جب ایک مرتبہ انسان صحت یاب ہو جاتاہے تو یہ یاد بھی نہیں رہتا کہ یہ کبھی ہوئے بھی تھے۔

(جاری ہے)

چونکہ ان کے اسباب کا یقینی علم نہیں،اس لیے نہ ان کا حتمی علاج معلوم ہے اور نہ ان کے لیے کوئی خاص طریقہ سدباب ہے۔

ان میں اکثر تکالیف کا باعث وائرس ہوتاہے،جو انتہائی چھوٹا کیڑا ہے،جو عام خردبین سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔انتہائی نازک ژرف بین اور حساس ٹیسٹوں کے باوجود صرف نصف سے بھی کم مریضوں میں ان کیڑوں کا پتا چلتاہے ،جو امراضِ سرما کا باعث ہوتے ہیں۔
ان امراض کی عام شکایات میں چھینکیں ،ناک سے ریزش اور کبھی کبھی ناک کا بند ہونا،سوزش حلق،کھانسی،گرانی طبع،حرارت وبخار اور عام نقاہت شامل ہیں۔
ان علامات کی وجہ اس مخملیں فرش کی سوزش اور ورم ہے،جوبالائی تنفسی اقلیم یعنی ناک،کان اور حلق وغیرہ میں بچھا ہوا ہے۔ان امراض کا خواہ علاج ہو یا نہ ہو،یہ سات آٹھ دن میں آپ سے آپ ٹھیک ہو جاتے ہیں ،بشر طے کہ اندرونی طور پر بنیادی کمزوری یا دیگر ہمراہی امراض کے سبب پیچیدگی پیدا نہ ہو گئی ہو،اس لیے وہ لوگ جن کو دل اور پھیپڑوں کی دائمی تکلیف رہتی ہے یا ٹھنڈ کے سبب زیادہ بیمار ہو چکے ہیں اور وہ چھوٹے بچے اور سن رسیدہ اشخاص جو ظاہر ہے کہ کمزور ہوتے ہیں،وہ ان امراض میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔
چونکہ زیادہ تر لوگوں میں یہ آپ سے آپ ٹھیک ہو جانے والے امراض ہیں،اس لیے امریکیوں کا یہ قول کسی حد تک درست ہے کہ اگر ٹھنڈ کا علاج کیا جائے تو یہ ایک ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہے،اگر نہ کیا جائے تو سات دن میں مرض جاتارہتاہے۔
اس گروہ امراض کا ایک رکن انفلوئنز ابھی ہے،انفلوئنزا انفلوئنس بہ معنی اثر۔انفلوئنزا اور عام نزلہ وزکام کی علامات میں کوئی واضح فرق نہیں ہوتا۔
چونکہ یہ بھی وائرس کی وجہ سے ہوتاہے،اس لیے ناک وحلق کی نرم جھلی پر اثر انداز ہوتاہے ۔انفلوئنزا کا خطرہ اس وقت زیادہ ہوتاہے،جب یہ وبا کی شکل میں آتا ہے،خصوصاً جب یہ عالمی وبا ہو۔گو اس زمانے میں اس حالت وبا میں اس قدر اموات نہیں ہوتیں،جس قدر ماضی میں ہوتی تھیں،مگر وبا کثیر حصہ آبادی کو ضرور متاثر کرتی ہے اور ایک ہی وقت میں ملک وقوم کا زیادہ حصہ بد حال ہو جاتاہے،جس کی وجہ سے دُور رس طبی،معاشی اور دیگرمسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

انفلوئنزا کی وبائیں ابتدائے تاریخ سے نازل ہوتی رہی ہیں۔گزشتہ چار سو سال میں تقریباً تیس بڑی عالمی وبائیں انفلوئنزا کے باعث آئی ہیں۔معمولی قسم کی وبائیں تو ہردو تین برس بعد آتی رہتی ہیں اور انسانی جانوں کا اتلاف اور مالی نقصان کرتی رہتی ہیں۔انفلوئنزا وائرس(انتہائی چھوٹا کیڑا)1933ء میں دریافت ہوا تھا۔اب اس کی تین اقسام ہیں:الف ،ب،ج،جن میں الف سب سے زیادہ خبیث ہے اور تمام عالمی وباؤں کا ذمے دار ہے۔
ب اور ج بالترتیب اپنی شدت میں کم ہوتے ہیں۔جب ایک مرتبہ وبائی فلو ہو جائے تو تمام مقامی آبادی میں فلوکے خلاف قوت مدافعت دو تین برس تک رہتی ہے۔ہر شخص میں فلو کے خلاف ایک انفرادی مزاحمت بھی ہوتی ہے،اس لیے بہت سے ایسے لوگ دیکھنے میں آتے ہیں،جن کو کبھی فلو نہیں ہوا اور ایسے بھی جن کو اکثر ہوتا رہتاہے۔
اس قسم کے امراض کی آمد کا زمانہ ابتدائے موسم سرما ہے،جو پہلے بچوں میں اس کے بعد گھر کے بڑوں میں ہوتے ہیں۔
وبا کے زمانے کے علاوہ نزلے اور فلو میں تمیز کرنا طبیب کے لیے بھی مشکل ہوتا ہے اور اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا ،گو بعض اشارے ایسے ہوتے ہیں کہ انفلوئنزا کا شک ہونا چاہیے،اس لیے کہ انفلوئنزا اچانک ہوتا ہے اور بعض دفعہ تو وہ ساعت بتائی جا سکتی ہے کہ جب تکلیف شروع ہوئی تھی۔انفلوئنزا میں اعضا شکنی ہوتی ہے،سروکمر میں درد ہوتاہے،قے ہوتی ہے اور آنکھوں کے عقب میں دکھن ہوتی ہے ،کھانسی خشک اور بے چین کرنے والی ہوتی ہے،گو بعد میں سفید جھاگ دار بلغم آتاہے ۔
پسینا اس قدر آسکتا ہے کہ کپڑے شرابور ہو جائیں۔انفلوئنزا کی خاص بات بعد میں ہونے والی اداسی وافسردگی اور سخت نقاہت ہے۔بعض دفعہ بہ ظاہر افاقے کے بعد مرض پھر عود کر آتاہے۔
یہ امراض جو نزلے زکام اور فلو کی شکل میں آتے ہیں،عموماً بے ضرر اور ایک مقرر عرصے میں آپ سے آپ ٹھیک ہو جانے والے ہوتے ہیں،اس لیے مشورہ یہ ہے کہ ان کا علاج ہلکی اور معمولی ادویہ سے کیا جائے اور جو وقتی تکالیف ہوتی ہیں،ان کا ازالہ مختلف طرح کیا جا سکتاہے ۔
طبی مشورے سے دافع درد،دافع بخار ،کھانسی کے شربت ،سونگھنے اور ناک میں ڈالنے والی ادویہ اور نیم گرم مشروبات مفید ہیں۔
ہر گھر میں ٹھنڈ کے علاج کے لیے کچھ خاندانی نسخے،مثلاً جو شاندہ وغیرہ ہوتے ہیں،ان کو استعمال کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں۔بھپارہ بھی لیا جا سکتاہے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ گرم اُبلتے ہوئے پانی کی کیتلی سے جو بھاپ اٹھتی ہے،اس کو سانس کے ساتھ ناک کے راستے اندر کھینچاجائے،اس سے نرم جھلیوں کی ٹکور ہوتی ہے،اس میں ٹنکچربینزوئن(TINCTURE BENZOIN)کے قطرے بھی طبی مشورے سے ڈالے جا سکتے ہیں۔
نیم گرم شوربا اور پانی بہ کثرت پیا جائے،اس لیے کہ پانی عفونتی امراض میں مصفیِ خون ہے۔
گوان امراض میں ضد حیوی ادویہ(اینٹی بائیوٹکس)کھانے کا رواج ہے،لیکن یہ بات ہر ایک کو معلوم ہونی چاہیے کہ کوئی ایسی ضد حیوی دو ا آج تک دریافت نہیں ہوئی ،جس سے ان امراض کا عرصہ ضرور کم ہو جائے یا یہ امراض رک جائیں ،اس لیے ان ادویہ کو اس مقصد سے قبل از مرض کھانا ،تاکہ مرض رک جائے،صحیح نہیں، نہایت چھوٹے کمزور بچوں اور دل وپھیپڑے کے مریضوں کو ٹھنڈ جلد لگتی ہے،ان کو یہ ادویہ عموماً دی جاتی ہیں۔

جن لوگوں میں عفونت ،حلق سے اُتر کر سینے پر گرے اور پھیپھڑے متاثر ہو جائیں کہ ابتدائی بیماری طویل ہو جائے،پیلا بلغم آتا رہے،طبیعت میں گرانی رہے اور سینے کا ایکس رے کرانے پر پھیپڑوں کی خرابی کا پتا چلے تو ایسے بیماروں کو یہ ادویہ دی جاسکتی ہیں ۔اصل علاج یہ ہے کہ مریض کو حوصلہ اور اطمینان دلا یا جائے۔بیمار کے علم میں یہ بات لائی جائے کہ عرصہ مرض صرف چار پانچ روزہ ہے،اس دوران میں وہ صبر کرے ،آرام کرے ،سردی سے بچے ،اچھی غذاکھائے،جس میں تلی ہوئی کھٹی اور ریفر یجریٹرمیں رکھی ہوئی ٹھنڈی چیزیں شامل نہ ہوں۔مزید احتیاط یہ کہ کپڑوں سے جسم کو پوری طرح ڈھکیں،موزے، جوتے مناسب ہوں،گلابند ہو اور آستینیں پوری ہوں۔

Browse More Healthart