Corona K Mareez Or Anesthesia - Article No. 1844

Corona K Mareez Or Anesthesia

کرونا کے مریض اور انیستھزیا - تحریر نمبر 1844

تا دمِ تحریر دُنیا کورونا کی عفریت پر قابو پانے سے قاصر ہے- اس وباء نے جہاں دیگر کاروبارِ زندگی کو مُعطل کردیا ہے وہیں پر صحت کے شعبے پر دوہرا اثر ڈالا ہے ایک تو یہ کہ اچانک ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملہ کو ایک ایسی بیماری سے واسطہ پڑ گیا ہے

منگل 7 اپریل 2020

تا دمِ تحریر دُنیا کورونا کی عفریت پر قابو پانے سے قاصر ہے- اس وباء نے جہاں دیگر کاروبارِ زندگی کو مُعطل کردیا ہے وہیں پر صحت کے شعبے پر دوہرا اثر ڈالا ہے ایک تو یہ کہ اچانک ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملہ کو ایک ایسی بیماری سے واسطہ پڑ گیا ہے کہ جس کا علاج دستیاب نہ ہونے کے ساتھ یہ خطرناک اور جان لیواء بیماری مریضوں سے معالجین میں بہت آسانی سےمُنتقل ہونے کا خطرہ ہے - حفاظتی لباس اور سامان جو اس سلسلے میں تحفظ فراہم کر سکتا ہے اس وقت تمام دُنیا اور خاص طور پر کم آمدنی والے مُمالک میں کمیاب ہے اور اس سلسلے میں عالمی ادارۂ صحت بھی بے بس نظر آتا ہے- دوسری طرف کسی بھی مرض میں مُبتلا مریض جن کو طبی امداد کی اشد ضرورت ہو وہ اس وباء کے باعث ہسپتالوں تک پہنچنے سے قاصر ہیں اور اگر وہ کسی طرح سے ہسپتال پہنچ ہی جائیں تو بھی طبی عملہ شدید مصروفیت کے باعث اُن کو مُناسب توجہ اور ضروری طبی امداد نہیں دے سکتا-
یہ وائرس مُنہ اور سانس کے ذریعے جسم سے خارج ہونے والے مرئی اور غیر مرئی قطروں کے ذریعے آسانی سے پھیلتا ہے- یوں تو تمام طبی عملہ ان قطروں/چھینٹوں کے باعث اس بیماری میں مُبتلا ہو سکتا ہے لیکن اینستھیزیا کا عملہ اور ڈاکٹر سب سے زیادہ اس خطرے کی زد میں ہیں- کیونکہ ان کے فرائض میں مصنوعی تنفس کے لیے سانس کی نالی ڈالنا اور وینٹی لیٹر کے ذریعے سانس کی ترسیل ہے- اس سارے عمل میں سانس اور مُنہ سے نکلنے والے چھینٹے بہت آسانی سے طبی امداد فراہم کرنے والے تک پہنچ سکتے ہیں-اور مُناسب حفاظتی لباس اور آلات کی غیر موجودگی میں اینستھیزیا کے ڈاکٹر اس وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں- اس کے علاوہ اگر وینٹی لیٹر پر ضروری حفاظتی آلات نصب نہ ہوں تو یہ وائرس اس کے اندر زندہ رہ کر بعد میں آنے والے مریضوں تک پہنچ سکتا ہے- اس سلسلے میں ضروری اور مکمل معلومات ہنگامی بُنیادوں پر اینستھیزیا کے تمام ڈاکٹروں اور دیگرعملہ تک مُلک بھر میں پہنچانا بہت اہم ہے-
ماہرین کے مُطابق اس تربیت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
1- حفاظتی لباس اور آلات
2- آپریشن تھیٹر اور وینٹی لیٹر کی حفاظت
حفاظتی لباس اور آلات:
1- وہ تمام عملہ جو کسی بھی لحاظ سے مریض کو طبی امداد فراہم کر رہا ہو اُن کے لیے ضروری حفاظتی لباس میں سب سے اہم مُنہ اور ناک پر پہنا جانے والا خاص ماسک “این ۹۵” کہلاتا ہے- اس ماسک کی خاص بات اس کے اندر موجود بہت ہی نفیس فلٹر ہے جو تمام وائرل پارٹیکلز کو سانس کے ذریعے جسم میں داخلے سے روکتا ہے- یہ ماسک مختلف سائز اور اشکال میں آتا ہے اور چہرے کی ساخت کے لحاظ سے اس کا انتخاب کیا جاتا ہے- چہرے پر داڑھی کے بال اس کی فٹننگ اور کارکردگی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں- اس لیے اپنی جان کی حفاظت کے لیے وقتی طور پر داڑھی کو کاٹ لینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے- اگر کسی بھی صورت میں این ۹۵ چہرے کی ساخت کے باعث استعمال نہ ہوسکتا ہو تو اُس صورت میں “پی اے پی آر” نامی آلے کی ضرورت ہو گی- یہ آلہ مہنگا اور اور استعمال میں مُشکل ہے اور پاکستان میں اس کی دستیابی بھی یقینی نہیں ہے-
2- آنکھوں اور چہرے کو مُکمل طور پر ڈھانکنے والی شیلڈ کئی قسم کے ڈیزائن میں دستیاب ہے اور جو بھی ڈیزائین تمام عملہ کے لیے فراہم ہو سکے استعمال کی جا سکتی ہے-
3- گاؤن اور ہاتھوں کے دستانے حفاظتی لباس کا لازمی جُرو ہیں اور بہتر ہے کہ دستانوں کی دو تہیں پہنی جائیں- اس تمام تیاری کو “ڈاننگ اور ڈوفنگ (Donning & Doffing)” کہا جاتا ہے- اس عمل کے لیے آپریشن تھیٹر میں ایک جگہ مخصوص کی جانی چاہیے- اور یو ٹیوب پر اس کی ہدایات فلم کی صورت میں موجود ہیں اور تمام عملہ کو لازماً ان کو مکمل توجہ سے ایک سے دو مرتبہ ضرور دیکھنا چاہیے- ذیل میں دستیاب سینکڑوں میں سے ایک ویڈیو کا لنک آپ کے سہولت کے لیے موجود ہے-
https://www.youtube.com/watch?v=YzPUaWKpzdA
آپریشن تھیٹر اور وینٹی لیٹر کی حفاظت:
وہ تمام عملہ جو آپ کی مدد کے لیے آپریشن تھیٹر میں موجود ہو گا سب کے ساتھ مل کر تمام مراحل کے بارے میں تفصیل سے بات کی جائے تاکہ سب لوگوں کو آپ کے پلان کا علم ہو اور ٹیم کے تمام ممبرز کے لیے کام مختص ہوں تاکہ سب اپنا اپنا کردار ادا کر سکیں- اور مریض کو آپریشن تھیٹر میں لانے سے پہلے اس بات کا از سرِ نو یقین کر لیا جائے کہ تمام درکار دوائیاں اور اور آلات دستیاب اور استعمال کے لیے تیار ہیں-
1- وہ تمام عملہ جو کرونا وائرس کے مریض کو طبی امداد فراہم کر رہا ہو انہیں اپنا موبائل فون اور دیگر ذاتی اشیاء کو پہلے سے محفوظ کر دینا چاہیے تاکہ بھول کر بھی ان کو چھونے کا احتمال نہ رہے-
2- تمام وینٹی لیٹرز پر “ہیپا فلٹر” (HEPA) کی تنصیب لازمی ہے ورنہ کرونا وائرس مشین کے اندر زندہ رہ کر بعد میں آنے والے مریضوں میں مُنتقل ہو سکتا ہے- ہیپا فلٹر ایسے ذرات جو ۰.۳ ماہیکرون سے بڑے ہوں اُن کو ۹۹.۷ فی صد تک روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں- اس لیے اس فلٹر کی موجودگی وینٹی لیٹر کی حفاظت کے لیے ناگزیر ہے-
3- کرونا کے مریض کو جب بھی سانس کی نالی ڈالنا مقصود ہو تو یہ عمل ایسے آپریشن تھیٹر یا ہسپتال کے کمرہ میں کیا جانا لازم ہے جہاں پر ہوا کا نصب نظام “نیگیٹو پریشر “ والا ہو- اس طرح جو بھی جراثیم ہوا میں داخل ہوں وہ اُس کمرے سے باہر نہیں جا سکتے اور دوسرے کمروں میں موجود عملہ اور مریض محفوظ رہیں گے- یہی اُصول ایل ایم اے کے استعمال پر بھی لاگو ہو گا-
4- اگر آپریشن تھیٹر میں نیگیٹو پریشر والا ہوا کا نظام دستیاب نہ ہو تو اُس صورت میں سانس کی نالی ڈالنے کے بعد آپریشن تھیٹر کا دروازہ پندرہ منٹ تک بند رکھا جائے تا کہ ہوا میں موجود مرئی اور غیر مرئی چھینٹے ختم ہو جائیں- یہی حفاظتی تدابیر سرجری کے اختتام پر سانس کی نالی کے نکالنے کے بعد بھی اِختیار کی جانی لازم ہیں- اور جیسے کہ پہلے ذکر کیا تھا یہی اُصول ایل ایم اے پر بھی لاگو ہوتا ہے- دوسری جانب ایسے ہسپتال کے کمرے جہاں ہوا کی تبدیلی کا نظام موجود نہ ہوں وہاں ایسے مریض ہسپتال کے عملہ اور آلات کے لیے اور بھی خطرناک ہو سکتے ہیں- اس لیے کرونا وائرس کے شکار مریضوں کو مخصوص کمروں میں ہی رکھنا چاہیے-
5- آپریشن تھیٹر میں تمام وہ آلات جو اس سرجری میں استعمال نہیں ہونے ان کو کمرے سے باہر رکھ دیا جائے- اور اگر کسی وجہ سے ایسا ممکن نہیں تو اُن کو پلاسٹک سے ڈھانپ دینا ضروری ہے- کرونا کا وائرس دھاتی سطح پر ۳-۴ گھنٹے اور کاغذ، گتہ اور لکڑی وغیرہ چوبیس گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے- اس لیے مریض کے آپریشن تھیٹر سے جانے کے بعد ہر چیز کو نہایت احتیاط سے جراثیم کُش سپرے اور وائپس سے صاف کرنا عملے کے تحفظ کے لیے لازم ہے-
6- اس وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات کو کم سے کم کرنے کے لیے مریض کو سرجری کے بعد اُس وقت تک آپریشن تھیٹر میں ہی رکھا جائے جب تک وہ اپنے کمرے میں جانے کے قابل نہ ہو جائے- اس طرح کم لوگوں کا مریض سے سامنا ہو گا اور پھیلاؤ کا امکان کم سے کم رہے گا- دورانِ ٹرانسپورٹ مریض کے مُنہ پر عام سرجیکل ماسک ہر وقت موجود رہنا چاہیے اور اگر آکسیجن کی ضرورت پڑنے کا امکان ہو تو مریض کو سانس کی نالی کے ساتھ ہی اُس کے کمرے تک لے جا کر وہاں پر تمام حفاظتی تدابیر کے ساتھ سانس کی نالی نکالی جائے-
7- سرجری کے دوران ایک مددگار ہر وقت آپریشن تھیٹر کے باہر موجود رہنا چاہیے تا کہ وہ کسی بھی سازوسامان کی ضرورت کو پورا کرسکے-
8- سرجری کے بعد تمام عملہ حفاظتی لباس اور دوسرے آلات احتیاط سے اُتار کر ضائع کریں تا کہ کسی بھی طرح کے پھیلاؤ کا امکان کم سے کم ہو-
یہ چند احتیاطی تدابیر ہیں جن پر عمل کرنے سے عملہ اور دوسرے مریض اس مُتعدی مرض سے محفوظ رہ سکتے ہیں- کیونکہ حفاظتی انتظام ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جو اس وقت دستیاب ہے- ہر ہسپتال کی انتظامیہ اور ڈاکٹروں کو ہر قسم کی صورتحال سے نپٹنے کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی کر لینی چاہیے تاکہ وقت آنے پر بلا تامّل فوراً سب لوگ صورتحال کو آسانی سے سنبھال سکیں-

Browse More Healthart