Corona Ki Panchwin Qisam Omicron - Article No. 2346

Corona Ki Panchwin Qisam Omicron

کورونا کی پانچویں قسم ”اومیکرون“ - تحریر نمبر 2346

پاکستان میں بھی خطرے کی گھنٹی بج گئی

منگل 11 جنوری 2022

ڈاکٹر جمیلہ آصف
وزارت صحت نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان میں دسمبر کے آخر تک اومیکرون کے 75 کیسز سامنے آ گئے ہیں،کراچی میں 33،اسلام آباد میں 17،لاہور میں 13 اومیکرون کیسز کی تصدیق ہوئی،مجموعی کیسز میں سے 12 افراد کا تعلق انٹرنیشنل ٹریول (بین الاقوامی سفر) سے تھا،حکام نے متاثرہ مریضوں کو قرنطینہ کر دیا،متاثرہ افراد کی کنٹیکٹ ٹریسنگ کی جا رہی ہے۔
وزارت صحت نے بتایا کہ کورونا کی اقسام میں تبدیلی کے باوجود ویکسینیشن اور ایس او پیز پر عمل لازم ہے،تمام منظور شدہ ویکسین وبا سے بچاؤ میں انتہائی موثر ہیں،وزارت صحت نے شہریوں پر ویکسین لگوانے کیلئے زور دیا ہے اور کہا ہے کہ ویکسین کی دونوں خوراکیں اور اہل افراد بوسٹر بھی لگوائیں۔
اومیکرون کی دریافت نے پہلے سے خوف میں مبتلا دنیا کو مزید خوف زدہ کرکے رکھ دیا ہے۔

(جاری ہے)

جیسا کہ زیادہ تر لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ وائرسوں میں خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے جسے سائنسی زبان میں میوٹیشن کہتے ہیں۔خود میں تبدیلی لانے کی یہ صلاحیت زندگی کی کسی بھی قسم کے اندر فطری طور پر اپنی بقاء کے تحفظ کے زیر اثر قدرتی طور پر بھی ہو سکتی ہے اور لیبارٹریوں کے اندر مصنوعی طور پر بھی ایسا کرنا ممکن ہے۔حیاتیاتی ہتھیار تیار کرنے کی ٹیکنالوجی اسی انسانی صلاحیتوں کی مرہون منت ہے جس کے تحت جراثیموں کے اندر مختلف تبدیلیاں لا کر انہیں دشمن کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اسے ”بیالوجیکل وار فیئر“ کا نام دیا جاتا ہے۔

اومیکرون کی بوٹسوانا اور جنوبی افریقہ میں سب سے پہلے شناخت کی گئی۔کورونا وائرس کی اس نئی قسم نے سائنسدانوں اور صحت عامہ کے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ اس میں ایک ہی وقت میں بہت زیادہ تعداد میں تبدیلیاں پائی گئی ہیں۔اگر کسی وائرس میں بہت زیادہ تبدیلیاں آ جائیں تو اس بات کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے کہ نئی قسم ممکنا طور پر زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے اور زیر استعمال ویکسین کو غیر موثر بنانے کی صلاحیت کی حامل ہو سکتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے اومیکرون کو ”تشویشناک قسم“ قرار دیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ اس سے لاحق عالمی خطرات بہت شدید ہو سکتے ہیں۔
برطانیہ کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے تمام بالغ افراد کی وائرس کے خلاف قوت مدافعت کو بڑھانے کے لئے دو ماہ کے اندر ویکسین کی بوسٹر ڈوز (تیسرا انجکشن) لگا دی جائے گی۔برطانیہ میں کورونا ویکسین کی بوسٹر یا تیسری خوراک کی سفارش ان افراد کے لئے کی گئی ہے جن کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ ہے،فرنٹ لائن ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر ورکرز،اولڈ ہاؤسز میں مقیم بوڑھے لوگ،سولہ سے انچاس سال کی عمر کے افراد جو پہلے ہی سے دیگر امراض کا شکار ہیں۔
یاد رہے کہ برطانیہ میں کورونا ویکسین کی تیسری ڈوز دینے کا کام پہلے ہی جاری ہے۔
یاد رہے کہ یکم دسمبر کو اومیکرون کی امریکہ میں تصدیق ہوئی تھی جب ایک مسافر جنوبی افریقہ سے کیلیفورنیا واپس آیا۔حالانکہ اس شخص کو ویکسین کی دونوں ڈوز لگ چکی تھیں اس کے باوجود اس میں بیماری کی علامات ظاہر ہو گئیں۔اس کے علاوہ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا اومیکرون پہلے ہی امریکہ میں گردش کر رہا تھا تاہم مزید تحقیقات جاری ہیں۔
پریشان کُن بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ریاستوں میں کورونا کے خلاف ویکسینیشن کا کام مکمل ہو چکا ہے۔علاوہ ازیں بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مرکز نے ایئر لائنز کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان تمام مسافروں کے نام اور رابطے کی معلومات فراہم کریں جو 29 نومبر سے امریکہ جانے والی پروازوں میں سوار ہوئے تھے اور جو اس سے قبل دو ہفتوں کے دوران جنوبی افریقہ میں تھے۔

اومیکرون کے بارے میں ابھی بہت کچھ نامعلوم ہے بشمول یہ کہ آیا یہ زیادہ منتقلی اور زیادہ سنگین بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں،البتہ کچھ شواہد موجود ہیں کہ یہ لوگوں کو زیادہ آسانی سے دوبارہ متاثر کر سکتا ہے۔ابتدائی علامات میں اومیکرون صرف معمولی بیماری کا سبب بن سکتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر یہ بات بھی سامنے آئی ہے اومیکرون نوجوانوں کو زیادہ متاثر کر رہا ہے جیسے کہ افریقہ میں دیکھا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ،زیادہ تر مریضوں میں صرف معمولی سی کھانسی تھی جبکہ ان میں ذائقہ اور سونگھنے کی حس کھونے کی علامات بھی سامنے نہیں آئیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اومیکرون کا کورونا اینٹی باڈیز سے علاج زیادہ موثر ثابت نہیں ہو سکا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ نئی قسم جارحانہ طور پر پھیلتی ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے وسیع پیمانے پر ”مونو کلونل اینٹی باڈی ادویات“ کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

یہاں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ جب ڈبلیو ایچ او نے کورونا وائرس کی تبدیل شدہ نئی اقسام کو نام دینا شروع کیے تو انہوں نے یونانی حروف تہجی الفا،بیٹا،گاما،ڈیلٹا وغیرہ کی طرف رجوع کیا تاکہ ان اقسام کی وضاحت میں آسانی ہو۔پہلی تشویش ناک قسم،’الفا‘کی شناخت 2020ء کے آخر میں برطانیہ میں کی گئی تھی اس کے بعد جنوبی افریقہ میں جلد ہی ’بیٹا‘ آیا۔
لیکن سسٹم نے حروف تہجی کی ترتیب میں اگلے دو حروف Nu اور Xi کو چھوڑ دیا ہے۔حکام کا خیال تھا کہ Nu بہت آسانی سے”نئے“ کے ساتھ مکس ہو جائے گا جبکہ اگلا خط Xi چین کے اعلیٰ رہنما شی جن پنگ کا نام ہے۔ڈیلٹا جس کی پہلی بار ہندوستان میں شناخت کی گئی ہے گزشتہ ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے سے عالمی برادری کو ایک اور تشویشناک صورت حال دوچار کر رہی ہے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ اومیکرون کی تشخیص کے لئے بھی موجودہ پی سی آر ایک مستند ٹیسٹ کے طور پر دستیاب ہے جس سے اومیکرون سمیت کورونا وائرس کی تمام اقسام کی باآسانی تشخیص کی جا سکتی ہے۔جبکہ علاج کے لئے سٹیرائڈز اور انٹرلیوکن 6 ریسیپٹر بلاکرز’جو کورونا وائرس سے متاثر مریضوں کے لئے استعمال کیے جا سکتے ہیں‘اومیکرون کے کیسز میں استعمال کے لئے بھی دستیاب ہیں لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ یہ دوائیں اومیکرون کے خلاف کتنی موثر ثابت ہوتی ہیں۔
اس وقت ڈبلیو ایچ او اومائیکرون کو سمجھنے کے لئے دنیا بھر کے محققین کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ رابطے میں ہے۔جلد ہی اس کی تشخیص،علامات،انفیکشن کی شدت،ویکسین کی کارکردگی،ٹیسٹ اور علاج سے متعلق رہنمائی و آگاہی دستیاب ہو گی۔
اومیکرون وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لئے موثر اقدامات جس میں دوسروں سے کم از کم 1 میٹر کا جسمانی فاصلہ،اچھی فٹنگ والے فیس ماسک کا استعمال،ہوا دار ماحول،پُرہجوم جگہوں سے گریز،ہاتھوں کی صفائی اور کھانسی یا چھینک کیلئے کہنی یا ٹشو کا استعمال وغیرہ ناگزیر ہے۔
خوش قسمتی سے پاکستان میں اومیکرون کا پھیلاؤ کم ہے۔تاہم غربت مہنگائی اور بیروزگاری کے بوجھ تلے دبے ہوئے دنیا کے پانچویں بڑے ملک جس کا نظام صحت پہلے ہی سے زبوں حالی کا شکار ہے اور جسے اس وقت کئی مسائل کا بھی سامنا ہے کو اومیکرون سے نمٹنے کے لئے تمام حفاظتی ایس او پیز و رہنما اصولوں پر عمل کرنا گزیر ہے اور اس کے علاوہ این سی او سی،ہیلتھ اتھارٹیز،صوبائی حکومتوں اور عوام سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس صورت حال میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔

Browse More Healthart