Corona Vaccine Aur Jism Ka Qudrati Nizam - Article No. 2087

Corona Vaccine Aur Jism Ka Qudrati Nizam

کورونا ویکسین اور جسم کا قدرتی نظام - تحریر نمبر 2087

جب کوئی وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہ مدافعتی نظام اپنی چھریاں،چاقو تیز کر لیتا ہے اور اُس وائرس سے نمٹنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے

جمعہ 19 فروری 2021

یاسر پیرزادہ
ہمارے جسم کا مدافعتی نظام دو طریقوں سے کام کرتا ہے۔جب کوئی وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہ مدافعتی نظام اپنی چھریاں،چاقو تیز کر لیتا ہے اور اُس وائرس سے نمٹنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے،مدافعتی نظام کے خلیے(سیلز)وائرس کو ناکارہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں جسم کو بخار ہو جاتا ہے،جو دراصل وائرس کے لئے ناسازگار ماحول کا باعث بنتا ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے جسم کے ”ہمدرد“ خلیے کچھ کیمیائی مادوں سے بھی وائرس کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔مدافعتی نظام کا یہ دفاعی حربہ اکثر وائرس کو بھگانے میں کارآمد ثابت ہوتا ہے،مگر کچھ وائرس ڈھیٹ ہوتے ہیں اور وہ اس پہلی دفاعی لائن کو توڑ کر بچ نکلتے ہیں،اُن کے لئے ہمارے جسم کے پاس”پلان بی“ ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

قدرت نے ہمارے جسم میں ٹی سیل اور بی سیل رکھے ہوئے ہیں،ٹی سیل کی دو قسمیں ہیں،ایک کو مددگار کہہ لیں اور دوسرے کو”قاتل۔


دوسرے مرحلے میں بی سیل وائرس سے نبرد آزما ہوتا ہے اور جسم میں ضد جسم (اینٹی باڈی) پیدا کرتا ہے،تاکہ پہلے سے موجود مدافعتی نظام کے لئے وائرس کو مارنا ممکن ہو جائے،جب کہ قاتل ٹی سیل اُن خلیوں کو ختم کرتا ہے،جنھیں وائرس متاثر کر چکا ہوتا ہے ،چونکہ ان خلیوں میں وائرس”گھس“ چکا ہوتا ہے،اس لئے انھیں مارنا ضروری ہوتا ہے اور ٹی سیل باقی”شریف اور تابعدار“ قسم کے خلیوں کو مارے بغیر یہ کام نہایت چابک دستی سے کرتا ہے۔
اس پورے عمل کی سب سے دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب ہمارا جسم اپنے اس دہرے مدافعتی نظام کی مدد سے وائرس کو ختم کر دیتا ہے تو وہ ”یادداشت کے خلیوں“ میں وائرس کی جنگ سے متعلق یہ تمام باتیں محفوظ کر لیتا ہے،اسی لئے آئندہ جب وہی وائرس دوبارہ حملہ آور ہوتا ہے تو پھر ہمیں اتنا تردد نہیں کرنا پڑتا،ہمارا جسم فوری طور پر وائرس کو ناکارہ کر دیتا ہے اور ہمیں پتا بھی نہیں چلتا کہ ہم کیسے محفوظ ہو گئے۔
اسے ”ایمیونٹی“ یا قوت مدافعت کہتے ہیں اور ویکسین یہی قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کورونا وائرس کے باب میں ہمارے جسم کی قدرتی قوت مدافعت کو کیا ہوا اور سائنسی لیبارٹری میں بننے والی ویکسین کیسے کام کرے گی؟
دنیا میں اب تک آٹھ کروڑ سے زیادہ لوگ کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں ،ان میں مرنے والوں کی تعداد 18 لاکھ سے بھی زیادہ ہے، زیادہ تر لوگ اپنی قدرتی قوت مدافعت کی بدولت ہی صحت یاب ہوئے ،اُن کے جسم میں ٹی اور بی سیل نے کام کیا،وائرس کو مار بھگایا اور پھر اپنے خلیوں میں یہ معلومات محفوظ کر لیں،یہی وجہ ہے کہ کم از کم مستقبل قریب میں انھیں کورونا وائرس ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، اسی کو ضد جسم بننا کہتے ہیں۔
کورونا وائرس کے جو مریض زیادہ شدت سے اس کا شکار ہوئے،انھیں میڈیکل سائنس اور بروقت طبی امداد اور جدید سہولیات نے بچا لیا،خطرناک بات اس وائرس کی یہ ہے کہ شدید نوعیت کے کیسوں میں،بحالی صحت کے بعد بھی،اس کے اثرات رہتے ہیں اور بدن میں نقاہت اور کمزوری کے علاوہ دیگر اعضا کو نقصان پہنچنے کا احتمال رہتا ہے،ویکسین یہ کام کرے گی کہ اس وائرس کا جنیاتی مواد انسانی جسم میں داخل کرے گی،جس میں اصل وائرس کے اجزاء شامل نہیں ہوں گے،ہمارا جسم اُسے وائرس سمجھ کر اپنے مدافعتی نظام کو جاری کر دے گا اور ٹی سیل اور بی سیل فوراً اُسی طرح ”مسلح“ ہو جائیں گے،جیسے کسی وائرس نے حملہ کر دیا ہے۔

یہ معلومات یادداشت کے خلیوں میں محفوظ ہو جائیں گی اور جب کورونا وائرس کا حملہ ہو گا تو ان معلومات کا استعمال کرتے ہوئے ہمارا مدافعتی نظام وائرس کو مار بھگائے گا،کیونکہ اُس وقت یہ وائرس ہمارے جسم کے لئے انوکھا نہیں رہے گا۔اب کچھ لوگوں کو یہ وہم ہے کہ خواہ مخواہ جسم میں”غیر فطری“ جنیاتی مادے کا ٹیکہ کیوں لگوایا جائے؟ویکسین کے ذریعے ہمارے جسم میں سرے سے کوئی غیر فطری مادہ نہیں ڈالا جاتا، بلکہ اس طرح سے ”ناکارہ وائرس“ شامل کیا جاتا ہے،تاکہ جسم کو ممکنہ صورت حال میں اصل وائرس سے مقابلے کے لئے تیار کیا جا سکے۔
ایک مرتبہ جب ویکسین کے ذریعے ہمارا جسم یہ سیکھ جاتا ہے کہ اس وائرس کو کیسے برباد کرنا ہے تو پھر ویکسین کا کام ختم ہو جاتا ہے،ویکسین ہمارے جسم میں نہیں رہتی،صرف وائرس سے نمٹنے کا طریقہ یادداشت کے خلیوں میں رہ جاتا ہے، اسی عمل کو ویکسی نیشن (Vaccination) کہتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ہر ویکسین کے مضمرات ہوتے ہیں اور ہر ویکسین بیماری سے بچاؤ کی سو فیصد ضمانت نہیں ہوتی،مگر اس دنیا میں کسی بھی چیز کی سو فیصد ضمانت نہیں،کیونکہ انسانی جسم اس کائنات کی طرح پُراسرار ہے اور سائنس انھی اسرار سے پردہ اُٹھانے کا نام ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ویکسین سائنسی طریقہ کار کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے۔

Browse More Healthart